Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوف ودہشت کا ماحول

یوپی میں بی جے پی کی کامیابی اور آدتیہ ناتھ یوگی کے وزیراعلیٰ بنائے جانے کے بعد فرقہ پرست عناصر بے لگام ہونے لگے

* * * *معصوم مرادآبادی* * *

یوں تو بھارتیہ جنتاپارٹی نے جب سے وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں ملک کا اقتدار سنبھالا ہے تب سے مسلسل ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن میں ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کومختلف عنوانات کے تحت نشانہ بنایاجارہا ہے۔ لیکن ان واقعات میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد ہوش ربا اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی غیر معمولی کامیابی اور ہندو یووا واہنی کے سربراہ یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ بنائے جانے کے بعد فرقہ پرست عناصر کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ شدت پسند ہندوتنظیموں اور سنگھ پریوار سے وابستہ عناصر کی طرف سے کبھی گئو رکشا کے نام پر تو کبھی لوجہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں بلاخوف وخطر انجام دی جارہی ہیں۔ گئو رکشکو ں کے جارحانہ حملوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے اور ہرروز کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو گاؤ کشی یا گائے کی اسمگلنگ کے نام پر اذیتیں دی جارہی ہیں۔ ملک میں خوف وہراس کا ایسا ماحول ہے، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ اسی ماحول سے متاثر ہوکر گزشتہ ہفتہ اپوزیشن جماعتوں کے ایک نمائندہ وفد نے صدرجمہوریہ سے ملاقات کرکے ایک تفصیلی میمورنڈم سونپا ہے۔

اس وفد نے صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کو یہ باور کرایا ہے کہ ملک میں گئو رکشکوں کے حملوں اور اختلاف کی آوازوں کو دبائے جانے سے سنگین صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران جن میں کانگریس صدر سونیا گاندھی اور سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے علاوہ سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، این سی پی، سی پی آئی ، سی پی ایم اورترنمول کانگریس سمیت 13جماعتیں شامل تھیں، ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد اور عدم تحفظ کے ماحول پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمہوریت کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے صدر سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ صدرجمہوریہ کو جو میمورنڈم سونپاگیا ہے اس میں راجستھان کے الور اور اترپردیش کے دادری جیسے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ ان واقعات سے ملک میں عدم تحفظ ،عدم اعتماد اور خوف کا ماحول پیدا ہوگیاہے لہٰذا صدرجمہوریہ ملک میں یقینی حالات پیدا کرنے کیلئے دخل دیں۔

میمورنڈم میں مطالبہ کیاگیا ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیاجانا چاہئے۔ میمورنڈم میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق پیداشدہ شبہات کے علاوہ حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ اور دیگر جمہوری اداروں کو نظرانداز کئے جانے اور غیر بی جے پی سرکاروں کو غیر مستحکم کئے جانے کی کوششوں کا بھی ذکر ہے۔ اسی کے ساتھ اپوزیشن لیڈران کے خلاف سی بی آئی کے غلط استعمال پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہوکر صدرجمہوریہ کی توجہ جن سنگین حالات کی طرف مبذول کی ہے، ان سے اس وقت ملک کا ہر وہ شہری فکر مند ہے جسے اس ملک کا مفاد عزیز ہے اور جو پُرامن بقائے باہم کے علاوہ جمہوریت اور سیکولرزم کو پھلتا پھولتادیکھنا چاہتاہے کیونکہ اس سرکار نے تین برس کے عرصے میں سب سے زیادہ ضربیں سیکولر اور جمہوری اداروں پر لگائی ہیں جس سے آئین کی بنیادی روح مجروح ہوئی ہے۔ اس حکومت میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور لوگوں کے رہن سہن اور کھانے پینے کے طریقوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔

حکومت کے کارندے اپنی من مانی کو ہی اقتدار کی اصل طاقت سمجھنے لگے ہیں۔ جبکہ ہندوستان بنیادی طورپر ایک کثیر مذہبی ملک ہے جہاں کے لوگوں کے عقائد، رہن سہن اور کھانے پینے کے طریقے ایک دوسرے سے جدا ہیں اور آئین ان تمام بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن موجودہ حکومت اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی کوششوں کے تحت یہاں صرف ایک مذہب ایک زبان اور ایک کلچر کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ کوششیں اتنی جارحانہ اور غیر جمہوری ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والوں کو سبق سکھانے اور انہیں ملیامیٹ کرنے سے بھی گریز نہیں کیاجارہا ہے۔ ملک میں انسانوں سے زیادہ اہمیت جانوروں کو دی جارہی ہے۔گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں پر جان لیوا حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔

مسلمانوں کے دستوری اور قانونی حقوق غصب کرکے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لئے ایسے بیانات دیئے جارہے ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں دستور کی حکمرانی نہیں بلکہ سب کچھ عددی طاقت کے بل پر طے ہوگا۔ رام مندر کی مخالفت کرنے والوں کو غدار وطن قرار دے کر ان کے سرقلم کرنے کی دھمکیاں وہ لوگ دے رہے ہیںجو آئین ساز اداروں میں بیٹھے ہیں۔ خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت رام مندر کے مخالفین کو غنڈہ قرار دے رہے ہیں جبکہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ ایودھیا کا تنازعہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے اور متنازع اراضی عدالتی تحویل میں ہے لیکن اس کے باوجود رام مندر کے لئے پارلیمنٹ سے قانون بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔

اترپردیش میں اینٹی رومیو اسکواڈ کے نام پر فسطائی عناصر مسلمانوں کے گھروں میں دراندازی کررہے ہیں۔ غرض یہ کہ ملک کے بیشتر حصوں میں جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی کا اقتدار ہے، ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جس میں مسلمانوں کا جینا محال ہوگیا ہے اور وہ خوف وہراس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں ملک کی سب سے بڑی دستوری اتھارٹی اور جمہوریت اور سیکولرزم کے محافظ کے طورپر صدرجمہوریہ کا درہی بچا ہے، جہاں بھرپور طریقے سے دستک دی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ صدرجمہوریہ ملک کی سیکولر جمہوری روایات کو برقرار رکھنے اور ملک کے کمزور طبقوں کے آئینی اور قانونی حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کیا اقدام کرتے ہیں۔

شیئر: