صوبہ پنجاب میں ان دنوں مسلم لیگ ن کی حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جنہیں خود وزرا عوامی مقبولیت بڑھانے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
سڑکوں کی بحالی ہو، تجاوزات کے خلاف مہم، یا زمینوں پر قبضہ ختم کرنے کے دعوے، حکومتی بیانیہ یہ ہے کہ ریاست اب کمزور طبقے کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہی اقدامات میں حال ہی میں قبضہ مافیا کے خلاف شروع کیا گیا بڑا آپریشن بھی شامل ہے جسے قانونی تحفظ دینے کے لیے ایک نیا آرڈیننس نافذ کیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
پنجاب میں تجاوزات کے خلاف آپریشن، بازار کیسے نظر آ رہے ہیں؟Node ID: 886969
-
مریم نواز کی حکومت کے متنازع منصوبے، ’مقبولیت کا گراف نیچے‘؟Node ID: 896863
حکومت کے مطابق اس مہم کے آغاز کے بعد صرف ابتدائی دنوں میں قبضے کے ایک ہزار سے زائد کیسز نمٹائے گئے اور ہزاروں ایکڑ سرکاری و نجی اراضی واگزار کرائی گئی۔
لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہری علاقوں میں کارروائیوں کے دعوے زیادہ سامنے آئے ہیں، جہاں طویل عرصے سے قبضہ مافیا کے خلاف شکایات کی جاتی رہی ہیں۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے وہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر برسوں سے بات تو ہوتی رہی ہے، لیکن عملی پیش رفت کم رہی۔
یہ کارروائیاں شروع ہونے سے قبل صوبائی حکومت نے پنجاب غیرمنقولہ جائیداد کی ملکیت کے تحفظ کا آرڈیننس 2025 جاری کیا۔
اس آرڈیننس کے تحت انتظامی افسران، بالخصوص ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جائیداد پر قبضے کی شکایت موصول ہونے پر 90 روز کے اندر فیصلہ کریں اور اگر قبضہ ثابت ہو جائے تو فوری طور پر جائیداد اصل مالک کے حوالے کر دی جائے۔
لاہور ہائی کورٹ میں کیا ہوا؟
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت نے اس پورے معاملے کو ایک نئے زاویے سے سامنے لاکھڑا کیا۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں عدالت نے اس آرڈیننس کے تحت انتظامی افسران کو دیے گئے اختیارات پر سخت سوالات اٹھا دیے۔
عدالت کے ریمارکس سے یہ واضح ہوا کہ قانونی اور آئینی سطح پر یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی جائیداد سے متعلق معاملہ پہلے ہی کسی عدالت، حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہو تو انتظامی افسر اس پر کیسے کارروائی کر سکتا ہے؟

عدالت نے پٹواری اور اسسٹنٹ کمشنرز کو عدالتی نوعیت کے اختیارات دینے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے انتظامی ٹریبیونلز، انصاف کے بجائے مزید مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ سماعت وکلا قمر زمان اعوان اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر ہوئی، جن میں آرڈیننس کو چیلنج کیا گیا ہے، جبکہ پنجاب حکومت کو 22 دسمبر تک جواب جمع کرانےکی ہدایت کی گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں یہ ریمارکس ایسے کیس میں سامنے آئے جس میں پہلے ہی عدالتی سٹے آرڈر موجود تھا، تاہم اس کیس میں بھی ڈپٹی کمشنر نے ایک ہی سماعت میں فیصلہ سنا دیا جبکہ مخالف پارٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
یہاں سے وہ قانونی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں جن پر ماہرین پہلے ہی سوالات اٹھا رہے تھے۔ پاکستان میں جائیداد سے متعلق تنازعات روایتی طور پر دیوانی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں جن پر کوڈ آف سِول پروسیجر لاگو ہوتا ہے۔
اس قانون کے تحت جائیداد کے مقدمات برسوں چل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے صوبے میں ’شارٹ کٹ‘ انصاف رائج کیا ہے اور انتظامی فیصلے کو اس آرڈیننس میں اتنی طاقت دی گئی ہے کہ اسے سِول عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا۔
آرڈیننس میں یہ شق شامل کی گئی ہے کہ اگر کوئی معاملہ عدالت میں زیرِسماعت ہو تو انتظامی کارروائی روکی جا سکتی ہے، لیکن عملی سطح پر اس شق کے اطلاق کا طریقہ کار واضح نہیں۔

یہی ابہام لاہور ہائی کورٹ کی سماعت میں بھی نمایاں ہوا جہاں عدالت نے پوچھا کہ ایسے معاملات میں فیصلہ کُن اتھارٹی کون سی ہو گی اور تنازعے کی صورت میں کس فورم کو بالادستی حاصل ہو گی؟
پنجاب کے عوام کہاں کھڑے ہیں؟
حکومت کی جانب سے زمینوں کے تیز ترین فیصلوں نے صورتِ حال دلچسپ کر دی ہے۔ اس نئے طریقہ کار میں آرڈیننس کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹی ایک ہی دن درخواست دہندہ، مخالف پارٹی اور پٹواری کو بُلا لیتی ہے۔
شیخوپورہ میں گذشتہ ہفتے اس کمیٹی کے سامنے ایک ایسا کیس تھا جس میں ایک بھائی نے وراثتی زمین کے فرنٹ کے چار کنال پر قبضہ کر رکھا تھا۔
اُس شخص نے دوسرے بھائی اور بہنوں کو اُن کے حصے کی زمین اِس سے پیچھے دے رکھی تھی۔ اس کیس میں متاثرہ بھائی کی درخواست پر بند کمرے میں سماعت ہوئی۔
دونوں پارٹیوں کو آمنے سامنے بٹھا کر کے اُن کا موقف سنا گیا اور پٹواری کو سامنے بٹھا کر دو گھنٹے میں اس زمین کے فرنٹ کو دونوں بھائیوں میں دو دو کنال کے حساب سے تقسیم کر دیا گیا۔
اس کیس میں ایک پارٹی کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل محمد آذر بتاتے ہیں کہ ’جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘

’دونوں پارٹیاں باہر نکلیں تو نہ صرف فیصلہ ہو چکا تھا بلکہ سرکاری کاغذات میں نئی تقسیم بھی درج ہو چکی تھی۔ عمومی طور پر اس طرح کا کیس 20، 20 سال چلتا ہے۔ میں دیوانی مقدمات کا وکیل ہوں، میرے لیے یہ تجربہ بھی حیران کن تھا۔‘
شیخوپورہ کے ایک شہری محمد علی جن کی 10 مرلہ زمین چار مختلف بڑی پارٹیوں نے اپنی کالونیاں بنانے کے دوران غائب کر دی تھی، وہ بھی اپنی درخواست لے کر پہنچے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ہی دن میں اب میں اپنی 10 مرلہ زمین کا ملک ہوں، سارے طاقت ور افراد سے میری زمین جس طرح واگزار کروائی گئی ہے ایسا تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔‘
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو حکومت کے اس ’تیزترین‘ انصاف سے ناخُوش ہیں اور اپنے آپ کو متاثر سمجھ رہے ہیں اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی عدالت میں چھ درخواستوں کو ایک ساتھ سُنا گیا اور حکومت سے 22 دسمبر کو جواب طلب کرلیا گیا ہے۔
اسی طرح ایک درجن سے زائد درخواستوں پر ہائی کورٹ کے مختلف ججز نے حکومتی فیصلوں پر حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے سِول عدالتوں کو ایک ایک ماہ کے اندر فیصلے کرنے کے حکم نامے بھی جاری کیے ہیں۔

دیوانی مقدمات کے ماہر وکیل رانا شعیب کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ آرڈیننس زیادہ عرصے تک مؤثر نہیں رہے گا، ہائی کورٹ نہیں تو سپریم کورٹ اسے معطل کر دے گی کیونکہ یہ ایک طرح سے متوازی نظامِ انصاف ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’میرے کئی موکل ان کمیٹیوں میں جا چکے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ وقتی انصاف کتنی دیر تک شفاف رہے گا؟‘
’ابھی تو وزیراعلٰی کسی مشن پر ڈنڈا لیے کھڑی ہیں، کل کو وہ نہیں ہوں گی تو یہ انتظامیہ ایک ایک دن میں اپنی مرضی سے زمینوں پر قبضے کروا رہی ہو گی۔‘
رانا شعیب کے مطابق ’عدالتی چیک کو ہٹا کر انصاف کا نظام کھڑا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نظامِ انصاف کا سُقم دُور کرے، جو دیرپا حل ہے۔‘
وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ ’پنجاب کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے، آپ جا کر ان مظلوموں کی کہانیاں سنیں جنہیں 24، 24 گھنٹوں میں اپنی زمینیں واپس ملی ہیں۔‘
’وزیراعلٰی مریم نواز نے وہ کام کیا ہے جو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ حکومت نے پوری تحقیق کر کے اور تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ آرڈیننس نافذ کیا ہے۔‘
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی آئندہ سماعت انتہائی اہم ہے اور وہ اس بات کا تعین کرے گی کہ ’تیز ترین انصاف‘ ایسے ہی جاری رہے گا یا پھر حکومت خود عدالت کو جواب دہ بن جائے گی۔












