پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع کراچی کاٹن ایکسچینج بلڈنگ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہے جسے ایک سرکاری ادارہ جائیداد کی بازیابی قرار دے رہا ہے جبکہ متاثرہ فریق اسے غیرقانونی اقدام کہہ رہا ہے۔
اس تنازع نے پاکستان خصوصاً کراچی میں متروکہ اراضی کے تصور، اس کی قانونی حیثیت اور اس کے عملی استعمال کے حوالے سے کئی اہم سوالات پیدا کیے ہیں۔
متروکہ اراضی کیا ہوتی ہے؟
قیام پاکستان کے بعد لاکھوں افراد نے ہجرت کی۔ وہ لوگ جو انڈیا چلے گئے، ان کی جائیدادیں قانوناً متروکہ قرار پائیں۔ ان املاک کے انتظام کے لیے مختلف قوانین وضع کیے گئے اور بعد ازاں متروکہ وقف املاک بورڈ قائم ہوا، جس کا مقصد ان جائیدادوں کو ریاستی تحویل میں لے کر مذہبی، فلاحی اور عوامی مفاد میں استعمال کرنا تھا۔
مزید پڑھیں
تاہم وقت کے ساتھ یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ آیا ہر وہ جائیداد، جس پر ریاست یا کوئی سرکاری محکمہ دعویٰ کرے، حقیقت میں بھی متروکہ جائیداد کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔ خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں، جہاں تقسیم سے پہلے زمین کی خرید و فروخت اور لیز کے پیچیدہ ریکارڈ موجود ہیں تو اس لیے یہ معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے۔
کراچی کاٹن ایکسچینج: ایک تاریخی عمارت
کراچی کاٹن ایکسچینج بلڈنگ کو شہر کی تجارتی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے، مگر اس کی اہمیت صرف تجارت تک محدود نہیں۔
معروف محقق اور تاریخ دان پیرزادہ سلمان اپنی کتاب ’کراچی:لیگیسیز آف ایمپائرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’20 ویں صدی کے ابتدائی نصف میں کراچی کی زیادہ تر عمارتیں یا تو کلاسیکی طرزِ تعمیر کی حامل تھیں یا پھر ری وائیولسٹ رجحان کی عکاس تھیں، لیکن کاٹن ایکسچینج بلڈنگ ان سب سے مختلف نظر آتی ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عمارت آرٹ ڈیکو طرز تعمیر کی ایک نادر مثال ہے، جو مکلیوڈ روڈ (موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ) پر واقع ہے۔‘
پیرزادہ سلمان کے مطابق یہ عمارت آج بھی دیکھنے میں نسبتاً جدید محسوس ہوتی ہے، حالانکہ اس کی تعمیر کو تقریباً ایک صدی ہو چکی ہے۔ یہی اس کی انفرادیت ہے۔
کراچی، کپاس اور عالمی تجارت
پیرزادہ سلمان کے مطابق 1860 کی دہائی سے، اور بعض حوالوں کے مطابق اس سے بھی پہلے کراچی نے تجارتی لحاظ سے پھیلنا شروع کیا۔ یہ شہر بنیادی طور پر بمبئی (موجودہ ممبئی) کے تاجروں کے لیے ایک بندرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، جہاں سے سندھ میں تیار ہونے والی مصنوعات یورپ بھیجی جاتیں اور یورپی اشیا واپس لائی جاتیں۔

بمبئی کی کمپنیوں نے رفتہ رفتہ کراچی میں اپنے دفاتر قائم کر لیے، جس کے نتیجے میں کراچی چیمبر آف کامرس وجود میں آیا۔ جلد ہی یہ شہر کپاس کی تجارت کے حوالے سے ایک اہم مرکز بن گیا، اور کاٹن ایکسچینج کے قیام کو کراچی کی تجارتی اہمیت کا مضبوط ثبوت سمجھا جاتا ہے۔
پیرزادہ سلمان کے مطابق سنہ 1927 تک کپاس کا کاروبار کراچی چیمبر آف کامرس اور کراچی انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن کے زیرِانتظام تھا۔ تجارت میں اضافے کے بعد 20 اپریل 1933 کو کراچی کاٹن ایسوسی ایشن قائم کی گئی۔
حالیہ کارروائی: دعوے اور اعتراضات
دسمبر 2025 میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور متروکہ وقف املاک بورڈ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ کراچی کاٹن ایکسچینج بلڈنگ ایک وفاقی ٹرسٹ پراپرٹی ہے اور اسے غیرقانونی قبضے سے واگزار کرایا گیا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن بغیر قانونی اختیار کے عمارت میں کرائے دار بٹھا کر کرایہ وصول کر رہی تھی۔
دوسری جانب کراچی کاٹن ایسوسی ایشن نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ عمارت متروکہ پراپرٹی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اراضی سنہ 1936 میں باقاعدہ رجسٹرڈ دستاویز کے ذریعے خریدی گئی تھی اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے اسے 99 سالہ لیز پر دے رکھا ہے، جو سنہ 2081 تک مؤثر ہے۔
اس تنازع میں ایک غیرمعمولی پہلو اس وقت سامنے آیا جب کراچی کے میئر نے کھل کر کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کے مؤقف کی حمایت کی۔

میئر کے مطابق عمارت کی ملکیت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے پاس ہے اور وفاقی اداروں کی کارروائی بلاجواز ہے۔
یہ صورت حال اس بڑے سوال کو جنم دیتی ہے کہ جب کسی جائیداد پر وفاق اور بلدیاتی ادارے آمنے سامنے ہوں تو فیصلہ کس فورم پر ہونا چاہیے؟
قانونی ماہرین کے مطابق کسی جائیداد کو متروکہ قرار دینے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کا مالک تقسیم کے بعد پاکستان میں مقیم نہیں رہا۔
ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جائیداد اگر تقسیم سے پہلے قانونی طور پر منتقل ہو چکی ہو، تو اسے متروکہ قرار دینا پیچیدہ ہو جاتا ہے اور اس کا فیصلہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔‘
وہ یہ بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’انتظامی کارروائیوں کے ذریعے جائیداد کو سیل کرنا قانونی عمل کا متبادل نہیں ہو سکتا۔‘
خیال رہے کہ کراچی میں یہ پہلا موقع نہیں کہ متروکہ اراضی پر تنازع سامنے آیا ہو۔ شہر کے مختلف علاقوں میں درجنوں ایسی عمارتیں موجود ہیں جن پر کبھی ایویکیو ٹرسٹ، کبھی صوبائی اداروں اور کبھی بلدیاتی حکومت نے دعویٰ کیا۔ ناقدین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ زمین کے ریکارڈ کا غیرشفاف ہونا اور اداروں کے درمیان اختیارات کی واضح حد بندی کا فقدان ہے۔
یہ تنازع کیوں اہم ہے؟
کراچی کاٹن ایکسچینج بلڈنگ کا معاملہ اس لیے اہم سمجھا جا رہا ہے کیونکہ یہ صرف ایک تاریخی عمارت کا نہیں، بلکہ یہ اس بات کا امتحان ہے کہ پاکستان میں زمین اور جائیداد کے تنازعات کس طرح حل کیے جاتے ہیں۔ کیا ایسے معاملات انتظامی طاقت سے نمٹائے جائیں گے، یا عدالتی عمل کے ذریعے؟

اب یہ معاملہ ممکنہ طور پر عدالت میں جائے گا، جہاں یہ طے ہونا ہے کہ آیا یہ عمارت واقعی متروکہ ہے یا نہیں۔ اس فیصلے کے اثرات صرف ایک عمارت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ مستقبل میں کراچی اور دیگر شہروں میں متروکہ اراضی کے معاملات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔












