Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ثقافتوں کا تبادلہ، سعودی عرب میں پہلا یورپی فلم فیسٹول

فیسٹیول کا آغاز فرانسیسی فلم ’پرفیوم‘ کی نمائش سے ہوا( فوٹو عرب نیوز)
اسبلاند واکس سینما اس وقت گونج اٹھا جب بین الاقوامی فلم سازوں، سعودی تخلیق کاروں، اور سفیروں کے مجمع نے ریاض میں اپنی نوعیت کے پہلے یورپی فلم فیسٹیول میں ایک ساتھ شرکت کی۔
عرب نیوز کے مطابق فیسٹیول کا آغاز گریگوری میگن کی فرانسیسی فلم ’پرفیوم‘ کی نمائش سے ہوا۔ اس سے پہلے 13 دیگر منتخب یورپی فلموں کی نمائش ہوئی۔
اس تقریب کی منصوبہ بندی مقامی طور پرعریبیہ پکچرز نے یورپی یونین، سعودی فلم کمیشن کے تعاون سے کی تھی۔ اسے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، پیوجیوٹ، الائنس فرانسیز، اور یورپی یونین کے رکن ریاستی سفارت خانوں بشمول آسٹریا، بیلجیئم، قبرص، ڈنمارک، جرمنی، یونان، اٹلی، سپین اور سویڈن کی سپورٹ حاصل تھی۔
سعودی عرب میں یورپی یونین کے سفیر پیٹرک سائمنیٹ نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ’ آج ہم یورپ اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کا جشن بھی مناتے ہیں۔ ہم سب مملکت کے ثقافتی منظر اور سعودی آبادی کے سب سے بڑے حصے تک ثقافت اور تفریح کو پہنچانے کے لیے ویژن 2030 کے متاثر کن دباؤ کو دیکھنے کے لیے انتہائی پرجوش ہیں۔‘
عریبیہ پکچرز کی سی ای او روی المدنی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ اس فیسٹیول کا مقصد ثقافتوں کو ملانا، سعودی فلم سازوں اور سامعین کو بین الاقوامی تخلیقات سے روشناس کرانا اور عالمی سطح پر گفتگو کرنا ہے۔ ہماری صنعت بہت نئی ہے اور ابھی شروع ہو رہی ہے اس لیے ہمارے پاس بہت سے ایسے شعبے ہیں جن سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ مثال کے طور پر آن گراونڈ پروڈکشن، لائٹنگ، لوکیشن ڈیزائن یہاں تک کہ ہدایت کاری یا پروڈکشن سے متعلق سادہ تکنیک۔‘
سعودی فلم کمیشن کے سی ای او عبداللہ آل عیاف نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میرا ماننا ہے کہ اس طرح کے فیسٹیولز کا انعقاد بہت اہم ہے اور فلم کمیشن میں ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کا مرکز ہے۔‘

یوروپی فلم فیسٹیول 22 جون تک اسبلاند واکس سینما میں جاری رہے گا( فوٹوعرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’ یہ سامعین کو تجارتی طور پر مارکیٹ میں موجود فلموں سے مختلف فلمیں دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ یورپی فلم سازوں یا دیگر کو مختلف فیسٹولز میں نئے سامعین سے ملنے اور بات چیت کے لیے جگہ پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ڈسٹری بیوشن کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے۔‘
عبداللہ آل عیاف نے کہا کہ ’ ایک ایسا رشتہ جو مملکت اور بین الاقوامی خطوں کے درمیان ثقافتی تبادلے اور سیکھنے پر مرکوز ہے جو نوجوان سعودی فلمی صنعت کی ترقی کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ یہ فلم پروڈکشن میں ماہرین کو لانے، تربیتی پروگرام بنانے، انٹرن شپس، کو پروڈکشنز یہاں تک کہ مالیاتی انتظام کے نقطہ نظر سے سیکھنے کا موقع ہے۔‘
امریکی پروڈیوسر ٹوڈ نیمس اسے سعودی عرب کے لیے ایک صنعت کے طور پر اپنی شناخت بنانے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ یورپ میں ایک برانڈ کے بارے میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے جو آپ کو فرانسیسی فلموں کی طرح ملتا ہے۔ سعودی کے لیے ایسا ہو سکتا ہے میرے خیال میں سعودی فلم میں یہاں واقعی جگہ بننے کی صلاحیت ہے جو کمرشل ہے لیکن برے طریقے سے نہیں۔ یہ ان کی اپنی چیز ہے۔‘
فلمسازعمر العمیرات جنہوں نے سعودی فلم فیسٹیول میں بھی شرکت کی نے اس طرح کے فیسٹیولز میں ہونے والی زبردست تبدیلی کو نوٹ کیا۔

سعودی فلم کمیشن کے سی ای او  نے بھی فیسٹول میں شرکت کی( فوٹو عرب نیوز)

انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ یہ صرف سعودی نہیں ہے، یہ دنیا ہے۔ بین الاقوامی فلموں کو دیکھنے سے ہمیں ایک اور نقطہ نظر اور تاثر ملے گا کہ وہ دنیا کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس سے ہمیں یہ بصیرت ملتی ہے کہ یہاں سعودی میں اپنی دنیا کی تصویر کیسے بنائی جائے۔‘
سعودی مصنفہ، اداکارہ اور ہدایت کار سارہ طیبہ نے سعودی فلمی سکرینوں پر لائے جانے والے تنوع کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ ہمیں ہمیشہ ہالی وڈ تک رسائی حاصل ہے لیکن میرے نزدیک یورپی سنیما بالکل مختلف ہے۔‘
آنے والی یورپی فلموں کی نمائش میں جیسیکا ہاسنر کی ’لٹل جو‘، جیویئر فیسر کی ’کیمپیونز‘، ناتھن گراسمین کی ’میں گریٹا‘ اور بہت سے دوسرے شامل ہوں گی۔
یوروپی فلم فیسٹیول 22 جون تک اسبلاند واکس سینما میں فلموں کی نمائش کرے گا۔

شیئر: