Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چلو تم ادھر کو ہَوا ہو جدھر کی :عبدالخالق بٹ کا کالم

مخصوص عمارتوں پر نصب مُرغ باد نما ہَوا کے ساتھ اپنا رُخ بدل لیتا ہے۔ فائل فوٹو
آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے
غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے
غفلت شعار محبوب کی مستعدی کا احوال سناتا شعر ابوالعصر حفیظ جالندھری کا ہے، جن کا گانا اور ترانہ دونوں لاجواب ہیں۔ خیر شعر بالا میں ہماری غرض لفظ 'لحد' سے ہے، کہ یہ آخرت کی پہلی منزل ہے۔ 
عام طور پر اردو میں 'لحد' اور 'قبر' کو باہم مترادف سمجھتا جاتا ہے، جب کہ عربی زبان میں معاملہ مختلف ہے۔ وہ یوں کہ عربی میں 'لحد' اُس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کے اندر ایک جانب بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کی قبر ہمارے یہاں 'بغلی قبر' کہلاتی ہے۔
اب آپ 'ایک جانب' کے مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے 'لحد' کے ساتھ لفظ 'الحاد' پر غور کریں۔ 'الحاد' کے معنی وسط سے ہٹ جانا یا سیدھے رُخ سے منحرف ہو جانا ہیں۔ جب تیر نشانے پر نہ لگے تب  کہتے ہیں 'اَلحد السہمُ الھدف' یعنی تیر نے نشانے سے الحاد کیا۔ 
ایک جانب ہونے اور ہٹنے ہی کی رعایت سے اصطلاح میں کج فکری کو 'الحاد' اور کج فکر کو 'ملحد' کہتے ہیں۔ ویسے اس ملحد سے متعلق مصحفی خوب کہہ گئے ہیں:
'ملحد ہوں اگر میں تو بھلا اس سے تمہیں کیا'۔
عام سماجی رویہ ہے کہ جس پر 'ملحد' کا الزام لگے اُسے 'زندیق' بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔
لفظ 'زِندیق' معرب لفظ ہے، اس کی اصل پہلوی زبان کا 'زند / ژند' ہے، دراصل 'زند' مجوسیوں یا پارسیوں کی مقدس کتاب کا نام ہے، اور کتاب ہی کی نسبت سے انہیں 'زندی' بھی کہا جاتا ہے۔ بعض مخصوص اسباب کی وجہ سے لفظ 'زندی' نے 'زندیک' کی صورت اختیار کی، اور یہ لفظ اپنے لفظی معنی سے زیادہ اصطلاحی معنی میں برتا گیا۔ 

ایک خاص طرح کی کمان سے چھوڑا جانے والا 'ناوک' اصلاً فارسی 'ناو' سے نسبت رکھتا ہے۔ فوٹو: فری پک

یہی 'زندیک' معمولی تغیر کے بعد 'زندیق' ہوا اور اس کی جمع 'زنادقہ' قرار پائی۔ اب اس 'زندیق' کو علامہ اقبال کے شعر میں ملاحظہ کریں:
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 'کافر' کو 'کُفر' سے نسبت ہے، اور کُفر کے معنی چھپانے کے ہیں۔ یہ لفظ حق کو چھپانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سلسلے کا ایک لفظ 'کَفَارہ' بھی ہے، جب کوئی خطا کر بیٹھتا ہے، تو اس خطا کے بعد خلوصِ نیت سے کی جانے والی نیکی اس گناہ کا کَفارہ بن جاتی ہے، یعنی اس گناہ کو ڈھانپ دیتی ہے، یوں ڈھانپنے اور چھپانے کا یہ عمل 'کفارہ' کہلاتا ہے۔
اس 'کفارہ' کے بیان میں استاد امام بخش ناسخ  کا کہنا ہے: 
خوف سب جاتا رہا دل سے عذاب ہجر کا
نقد جاں دینا گناہِ عشق کا کفارہ تھا
گزشتہ نشست میں 'تیر' کے زیر بحث 'ناوک' کا بیان رہ گیا تھا، سو اس کا احوال سنیں اور یہ جان کر سر دُھنیں کہ 'تیر' سے نسبتاً چھوٹا اور عام کمان کے برخلاف ایک خاص طرح کی کمان سے چھوڑا جانے والا 'ناوک' اصلاً فارسی 'ناؤ' سے نسبت رکھتا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ 'ناؤ' تو کشتی کو کہتے ہیں، پھر بھلا 'ناوک' کو 'ناؤ' سے کیا نسبت ہے؟ 
عرض ہے کہ سنسکرت میں کشتی کو ' نَو / नौ / nau' کہتے ہیں۔ یہی 'نَو' ہندی میں 'ناؤ' ہے، جب کہ فارسی میں یہ لفظ واؤ پر ہمزہ کے بغیر بصورت 'ناو' موجود ہے۔ یوں یہ لفظ سنسکرت اور فارسی کی مشترکہ میراث ہے۔ 

فرہنگ ہائے فارسی کے مطابق ہر وہ چیز جو درمیان سے خالی ہو 'ناو' کہلاتی ہے۔ فوٹو: فری پک

اب آگے بڑھنے سے پہلے سنسکرت اور فارسی زبان کا مشترکہ اصول بھی ذہن نشین کرلیں کہ جب کسی اسم کی تصغیر بنانی ہو یعنی اُسے چھوٹا بتانا ہو تو اس اسم کے آخری میں 'کاف/ ک' بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے سنسکرت میں دیپ سے دیپک یا بال سے بالک ہے، ایسے ہی فارسی میں طفل سے طفلک اور پسر(بیٹا) سے پسرک (چھوٹا بیٹا) ہے۔  
اس کے علاوہ کسی اسم کے آخر میں آنے والا 'کاف/ ک' اُس شے سے مشابہت یا مناسبت ظاہر کرتا ہے۔ جیسے تلخ سے تلخک ہے، ایسے ہی سفید سے سفیدک ہے۔  
فرہنگ ہائے فارسی کے مطابق ہر وہ چیز جو درمیان سے خالی ہو 'ناؤ' کہلاتی ہے، چوں کہ کشتی بھی درمیان سے خالی ہوتی ہے، اسی لیے 'ناو' کی تعریف میں آتی ہے۔ اس تعریف کی روشنی میں 'ناوک' پر غور کریں تو اسے یہ نام لوہے یا لکڑی کی اُس مخصوص کمان کی وجہ سے ملا ہے جو درمیان سے کھوکھلی ہوتی ہے اور اس میں تیر رکھ پھینکا جاتا ہے۔ 
چوں کہ گفتگو خاصی مشکل ہو گئی ہے، اس لیے آگے بڑھنے سے قبل 'ناوک' کی رعایت مرزا رفیع سودا کا مشہور شعر ملاحظہ کریں:
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
'مرغِ قبلہ نما' حقیقت میں کوئی پرندہ نہیں بلکہ مُرغ کی شکل کا وہ نشان ہوتا ہے، جو قبلہ کی سمت ظاہر کرنے کے لیے نصب کیا جاتا ہے، اسے طائرِ قبلہ نما بھی کہتے ہیں۔
ایک 'مرغ باد نما' بھی ہوتا ہے، یہ ہوا کا رُخ بتانے والا مرغے کی شکل کا آلہ ہوتا ہے، جو انگریزی میں Weather Cock کہلاتا ہے۔ اہم یا مخصوص عمارتوں پر نصب یہ مُرغ ہَوا کے ساتھ اپنا رُخ بدل لیتا ہے۔ اسی وصف کی مناسبت سے موقع پرست کو بھی مجازاً 'مرغ باد نما' کہتے ہیں۔ ویسے ہَوا کے ساتھ بدل جانے کا مشورہ مولانا الطاف حسین حالی بھی دے گئے:
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی

شیئر: