درہ خیبر سے گزر کر جب برصغیر میں داخل ہوں تو سب سے پہلا شہر پشاور پڑتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
سوچا تھا اُس سے دور کہیں جا بسیں گے ہم
لیکن سروش ہم سے پشاور نہ چُھٹ سکا
محبوب کو چھوڑنے والا شاعر پشاور چھوڑنے پر آمادہ نہیں کہ اُسے زلفِ یار سے زیادہ پشاور کے در و دیوار اور قصہ خوانی بازار عزیز ہیں۔
کہتے ہیں ’دلی‘ جتنی زمین کے اوپر ہے، اُس سے زیادہ زمین کے نیچے ہے، یہی قول پشاور پر بھی صادق آتا ہے۔ خاص اندورنِ شہر میں محض چند فٹ کی کھدائی پر قدیم آثار کا برآمد ہوجانا باعثِ تعجب نہیں کہ پشاور کا ہر ذرہ طلسم آباد ہے۔
پشاور ہزاروں سال سے درہِ خیبر کے دہانے پر قدم جمائے کھڑا ہے۔ اس شہر نے سفید ہنوں کا عروج اور سکندرِ اعظم کا جلال دیکھا ہے۔ ترکوں، افغانوں اور مغلوں کے لشکر اس شہرِ کے پہلو سے گزرے اور خاص ہندوستان میں خیمہ زن ہوئے۔
اس سرد و گرم چشیدہ شہر کی رونقیں کبھی ماند نہیں پڑیں۔ اس کا شمار دنیا کے چند سدا آباد شہروں میں ہوتا ہے۔ بقولِ جلیل مانک پوری:
ہے آباد میرے تصور کی دنیا
حسیں آ رہے ہیں حسیں جا رہے ہیں
’پشاور‘ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس بارے میں خاصا ابہام ہے، پُر لطف بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ہر وضاحت لائق التفات ہے۔
ڈھائی ہزار سال قبل ہو گزرے یونانی مؤرخ اور جغرافیہ دان هكتيوس الملطی (Hecataeus of Miletus) نے پشاور کا تذکرہ ’کسپاپوروس‘ کے نام سے کیا ہے۔ جب کہ اس کے پیش رو مؤرخ ہیرو ڈوٹس (herodotus) نے اسے ’کسپاتوروس‘ پکارا ہے۔
ایران کے تاریخی شہر شیراز کے نواح میں واقع فارس کے قدیم حکمرانوں کے قبرستان ’نقشِ رستم‘ سے برآمد ہونے والے کتبات میں اس شہر کا نام ’پشکبور‘ درج ہے، جب کہ گندھارا میں عہد شاہ پور کا ایک قدیم نوشتہ دریافت ہوا ہے، جس میں ’پسکبور / pskbvr ‘ نامی شہر کا تذکرہ ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ’پسکبور‘ درحقیقت موجودہ ’پشاور‘ ہے۔ غور کریں تو نقش رستم کا ’پشکبور‘ اور گندھارا کا ’پسکبور‘ ایک ہی نام کے دو تلفظ ہیں۔
قدیم ہندوستان کے تذکرہ نگاروں میں چینی بدھ راہب فاہیان (Faxian) کا نام سر فہرست ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل چین سے پیدل ہندوستان آنے اور موجودہ سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت برصغیر میں پھیلے بدھ مت کے آثار کی زیارت کرنے والے اس سیاح نے پشاور کو ‘fùlóshā‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔
فاہیان کے چار سو سال بعد ہندوستان آنے والے مشہور چینی سیاح ہیون سانگ (Xuanzang) نے اس شہرِ نگاراں کا ذکر (bùlùshābùló) کے نام سے کیا ہے۔ جو لوگ ’ب‘ کی آواز ’پ‘ سے اور ’ل‘ کی آواز ’ر‘ سے تبدیلی ہوجانے کے عمل سے واقف ہیں، انہیں سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہیون سانگ کا ’بُولُوشابُولُو/ bùlùshābùló درحقیقت ’پُرشاپورہ‘ کا چینی تلفظ ہے۔
یہ ’پُرشاپورہ‘ کیا ہے؟ یہ جاننے سے پہلے دسویں صدی عیسوی کے مشہور عرب مؤرخ ’المسعودی‘ کی سنیں جس نے اس شہر کو ’پَرشاور‘ پکارا ہے، تو گیارہویں صدی عیسوی کے معروف ہیئت دان ’ابو ریحان البیرونی‘ نے اس شہر کا تذکرہ ’پُرشاور‘ کے نام سے کیا ہے۔
اب بات ہوجائے ’پُرشا پورا/ پُرش پور‘ کی، جسے ’پُرش پورہ‘ بھی لکھا جاتا ہے۔ اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ یہ ’پُرش پور‘ پشاور کا قدیم نام ہے، مگر خود ’پُرش پور‘ میں ’پُرش‘ کیا اور کون ہے؟، اس بارے میں اختلاف ہے۔
ایک سادے اور آسان فارمولے کے مطابق ’پُرش‘ اس شہر کے ہندو راجا کا نام تھا، جس کے نام پر اس شہر کا نام ’پُرش پور‘ ہوگیا۔
ایک دوسری رائے کے مطابق ’پُرش پور‘ سنسکرت زبان سے متعلق ہے، جو لفظ ’پُرش‘ بمعنی مَرد اور ’پور‘ بمعنی شہر سے مرکب ہے۔ یوں ’پُرش پور‘ کے معنی ہوئے ’مَردوں کا شہر‘۔ کثرت استعمال کے سبب ’پُرش پور‘ تغیر کے بعد ’پشاور‘ ہوگیا۔
اگر پشاور کو ’مَردوں کا شہر‘ تسلیم کیا جائے، تو سوال یہ ہے کہ کیا اس شہر میں فقط ابنِ آدم ہی آباد تھے، یہاں بنتِ حوا کا گزر نہیں تھا ؟ پھر ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ اگر شہر کو ’مَردوں‘ ہی کے نام سے یاد کرنا تھا تو سیدھے سبھاؤ اسے ’مردان‘ کیوں نہ کہہ دیا؟
قیاس کہتا ہے کہ پشاور کو مَردوں کا شہر کہنے کے پیچھے یہاں کے لوگوں کی جُرات و بہادری اور بے خوفی و بے باکی کا دخل ہے، غالباً یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اسے ’پُرش پور‘ پکارا گیا۔
رہی یہ بات کہ اسے ’مَردوں‘ کی نسبت سے ’مردان‘ کیوں نہیں کہا گیا، تو عرض ہے کہ زیر بحث لفظ (پُرش پورا) سنسکرت سے متعلق ہے، جب کہ ’مرد و مردان‘ کے الفاظ فارسی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ممکن ہے کہ ’مردان‘ کے ذکر سے آپ کا ذہن اُس مردان کی جانب منتقل ہوگیا ہو، جووادیِ پشاور ہی میں واقع صوبہ پختونخوا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اور یہ سوال تنگ کر رہا ہو کہ اس شہر کو ’مردان‘ کس حساب میں کہا جاتا ہے؟ عرض ہے کہ یہ شہر ’پیر مردان شاہ‘ کے نام کی نسبت سے ’مردان‘ کہلاتا ہے۔
خیر ذکر تھا ’پُرش پورہ‘ کا، تو اس بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ’پُرش پورہ‘ نے پُرکھوں کے دیے نام کا چُولا کب اتارا اور کب ’پشاور‘ کی قبا زیب تن کی۔
تاہم ایک روایت کے مطابق مغل حکمران جلال الدین اکبر کو اس شہر کا نام ’پُرش پورہ‘ ناقابل فہم معلوم ہوا، سو اس نے شہر کا نام بدل کر ’پشاور‘ رکھ دیا۔
بادشاہ اکبر کے نورتنوں میں شامل اور آئینی اکبری کے مصنف ابوالفضل فیضی نے اس شہر کا نام ایک جگہ ’پشاور‘ اور دوسری جگہ ’پَرشاوَر‘ درج کیا ہے۔
بعض محققین کے مطابق ’پشاور‘ دراصل لفظ ’پیش آوردن‘ کی تغیر شدہ صورت ہے۔ اس ’پیش آوردن‘ میں ’سرحدی شہر‘ یا ’منزل اول‘ کا مفہوم میں داخل ہے۔
برصغیر کی جغرافیائی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ درہ خیبر سے گزر کر جب برصغیر میں داخل ہوں تو سب سے پہلا شہر پشاور پڑتا ہے۔ اسی رعایت سے اس شہر کو ’پیش آوردن‘ کہا گیا ہے، جو بعد میں ’پشاور‘ ہوگیا۔
سن 2021 میں ریلیز ہونے والی تیلگو فلم ’پُشپا: دی رائز‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس فلم کی مقبولیت میں اُس کے دلچسپ مکالموں کو اہمیت حاصل ہے۔ ان مقبول مکالمات میں سے ایک درج ذیل ہے:
’ پُشپا نام سن کر فلاور سمجھے کیا؟ فلاور نہیں فائر ہے میں‘
بات یہ ہے کہ سنسکرت میں پھول کو ’پُشپا‘ / पुष्प' کہتے ہیں، اور پشاور کی وجہ تسمیہ میں سے ایک ’پُشپا‘ بھی ہے۔ قیاس ہے کہ اس شہر کا نام ’پُشپا پورہ‘ یعنی ’پھولوں کا شہر‘ تھا، تاہم بعد میں یہ نام ’پُشپا پورہ‘ سے ’پشاور‘ ہوگیا۔
اب پھولوں کی رعایت سے جلیل مانک پوری کا ایک مہکتا ہوا شعر ملاحظہ کریں: