Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ماڑی‘ جو انگریزوں کی مخصوص زبان کی وجہ سے ’مری‘ بن گیا

آخر تاجدارِ اَوَدھ نواب واجد علی شاہ فرنگیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور مَٹیا بُرج کے مکین قرار پائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
حسن کا تیرے اُجالا تھا اَوَدھ کی شام میں 
دل کشی تیری تھی ساری لکھنؤ کے نام میں 
کبھی 'شامِ اَوَدھ' مشرقی تہذیب کا استعارہ اور 'لکھنؤ' اس تہذیب کا گہوارہ تھا۔ جس دور میں مغل اقتدار کا سورج گہنایا، اُس عہد میں اَوَدھ کا آفتابِ اقبال نِصفُ النہار پر تھا۔ 
دراصل دلی کا اجڑنا لکھنؤ کے بسنے کی تقریب تھی۔ کیا میر و میرزا اور کیا تاباں و انشاء بہتوں نے اس دیار میں بار پایا اور شعر و سخن کا اعتبار بڑھایا۔  
یہاں خوشحالی کا ڈیرہ اور خوش بختی کا بسیرا تھا، دولت کی ریل پیل نے لکھنؤ کو بانکوں اور نوابوں کا شہر بنا دیا تھا۔ شام ڈھلے جب کُل ہندوستان میں کاروبار زندگی بڑھ چُکتا، اُس وقت شامِ اَوَدھ انگڑائی لیتی۔
گلی محلوں میں چہل پہل بڑھ جاتی، بازاروں کی رونقیں دوبالا ہو جاتیں۔ راستوں پر سرِشام ہونے والا چھڑکاؤ گرد بِٹھا چُکتا اور ان بے غبار راستوں پر کہاروں کی مخصوص آوازوں کے بیچ رواں دواں امیرزادوں کی پالکیاں اور پالکیوں کے ساتھ دوڑتے مصاحبین صاحبِ جاہ کے مقام و مرتبے کا پتا دے رہے ہوتے۔   
بازاروں میں گاہے بانکوں کی ٹولیاں اٹکھیلیاں کرتی پھرتیں۔ دکانیں دساوری اسباب کے خزانے معلوم ہوتیں۔ سَرِراہ گُل فروش براجمان ہیں، گلاب و گیندے کے ڈھیر لگے ہیں، موتیے کی مالاؤں اور بیلے کے گجروں سے پھوٹنے والی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو معطر بنا دیتی۔ غرض یہ سب کچھ بلکہ اور بہت کچھ مل کر جو سما باندھتا وہ الف لیلہ کی نگری سے پہلو مارتا ہے۔  
انہیں رنگین شاموں کے بدولت 'شامِ اَوَدھ' کا شُہرہ ہوا۔ 
پھر اس شہر نگاراں کو زمانے کی نظر کھا گئی، وہ بادِ سموم چلی کہ 'شیرازِہند' کا شیرازہ بکھر گیا۔ 
آخر تاجدارِ اَوَدھ نواب واجد علی شاہ فرنگیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور مَٹیا بُرج کے مکین قرار پائے۔ اَوَدھ کی رنگینیاں تاریکیوں سے بدل گئیں، نتیجتاً 'شامِ اَوَدھ' جو منظر پیش کرنے لگی۔ ایسے میں شاعر چِلّا اُٹھا:   
اودھ کی شامِ دل آرا کہاں سے لائیں گے 
جب قبریں اپنے بزرگوں کی یاد آئیں گی 

دولت کی ریل پیل نے لکھنؤ کو بانکوں اور نوابوں کا شہر بنا دیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ہندوستان میں 'صُبحِ بنارس' اور 'شام ا َوَدھ' ہی کی طرح 'شبِ مَالوَہ' کا بھی چرچا تھا۔ 'مَالوَہ' وسطی ہندوستان کی ریاست مدھیا پردیش میں واقع ہے۔ اس علاقہ کی سُہانی شبوں کی شہرت میں اس کے موسم کو دخل ہے۔  
واقعہ یہ ہے کہ موسم گرما میں ہندوستان کے شمال اور مغرب کی طرف سے نہایت گرم ہوا چلتی ہے۔ ایسے کٹھن اور کٹھور موسم میں جب بیشتر ہندوستان دن ہی نہیں رات میں بھی تپ رہا ہوتا ہے، سطح مرتفع پر آباد 'مَالَوہ' میں راتیں نہایت خوش گوار بلکہ خُنک ہوتی ہیں۔ انہیں خُنک راتوں کے طفیل 'شبِ مَالوَہ' کو افسانوی شہرت حاصل ہے۔ 
اس سے پہلے کہ 'مَالوَہ' کی وجہ تسمیہ پر بات ہو، 'خُنک' کی نسبت سے خورشید رضوی کا خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں: 
ہوا کا لمس یہ بوندیں خُنک خُنک خورشید 
مجھے تو آج فضاؤں میں گھولتا ہے کوئی 
اپنی پُرنم شبوں سے شہرت پانے والے 'مَالوَہ' کی نسبت قدیم ہندوستانی قبیلے مالاواس (Malavas) کی طرف ہے۔ تاہم ایک رائے کے مطابق 'مَالوَہ' کی اصل سنسکرت کا 'مالو' ہے، اور اس کے معنی 'لکشمی کی رہائش گاہ کا حصہ' ہیں۔  
مالوہ کی سطح مرتفع کے بعد اب کچھ ذکر سطح مرتفع پُٹھوار کا ہوجائے۔ اس کے بعض شہروں کی وجہ تسمیہ سے متعلق پہلے بھی لکھ آئے ہیں، آج چند مزید شہروں کا حال بیان کرتے ہیں۔ 
'کہوٹہ' ضلع راولپنڈی کا اہم شہر ہے۔ یوں تو یہ شہر قدیم ہی سے جنگجو قبائل کا مسکن رہا ہے، مگر فی زمانہ اس کی وجہ شہرت یہاں واقع جوہری توانائی کا ادارہ ہے۔ 

غالباً انگریزوں نے اپنے مخصوص لہجے میں 'ماڑی' کو 'ماری' پکارا جو کثرتِ استعمال سے 'مری' ہوگیا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

مقامی روایت کے مطابق 'کہوٹہ' راجپوت جنجوعہ خاندان کی رانی 'کہو' کے نام سے نسبت رکھتا ہے۔  
ضلع راولپنڈی کا ایک اور اہم علاقہ 'ملکہ کوہسار مری' ہے، جو اپنے خوشگوار موسم کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مری کو برٹش راج میں پہلے سرمائی دارالحکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، تاہم بعد میں یہ سرمائی دارالحکومت 'شملہ' منتقل ہوگیا تھا۔ 
یوں تو 'مری' ایک بلوچ قبیلے کا نام بھی ہے، مگر اس قبیلے کا اس علاقے میں گزر نہیں کہ یہ عباسیوں کا مرکز ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر 'مری' کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ 
انگریزوں کی آمد سے قبل اس حسین وادی میں کوئی منظم آبادی نہیں تھی۔ یہاں مختلف گاؤں آباد تھے۔ انہیں میں سے ایک گاؤں 'ماڑی' بھی تھا، جس کی نسبت سے یہ سارا علاقہ ماڑی کہلایا۔  
غالباً انگریزوں نے اپنے مخصوص لہجے میں اس 'ماڑی' کو 'ماری' پکارا جو کثرتِ استعمال سے 'مری' ہو گیا۔ 
اب ان پہاڑوں سے نیچے اترتے اور 'گوجرخان' چلتے ہیں۔ جیسا کہ اس شہر کے نام کے جُز اول ہی سے ظاہر ہے کہ اسے گوجروں سے نسبت ہے۔ مقامی روایت کے مطابق پندرہویں صدی عیسوی میں گجر قوم کے کچھ خاندان یہاں آباد ہوئے۔ انہیں گوجروں میں سے ایک 'خانا' نامی کاشتکار نے یہاں ایک گاؤں بسایا، جو اس کی نسبت سے 'گوجرخان' کہلایا۔ کل کا یہ گاؤں آج ضلع راولپنڈی کے ایک اہم شہر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔  
دنیا میں بہت سے پہاڑوں، دریاؤں، درّوں اور خطوں کے ناموں کی اصل ایک معمہ ہے۔ تاہم تاریخ دان اور ماہرین لسانیت مختلف آثار اور الفاظ کی مدد سے ان ناموں کی اصل تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ان کوششوں میں بعض لائق التفات جبکہ بعض افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ 
اسلام آباد سے قریب ضلع راولپنڈی کے مشہور علاقے 'واہ' کا نام بھی ایسے ناموں کی فہرست میں داخل ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ میں حقیقت سے زیادہ افسانے کو دخل ہے۔ 
کہتے ہیں کہ جب مغلِ اعظم جلال الدین اکبر اس خطے سے گزرا تو اس علاقے کا قدرتی حُسن دیکھ کر دنگ رہ گیا اور اس کے منہ سے بے ساختہ 'واہ' نکلا، بعد میں یہی اس علاقے کا نام قرار پایا۔
اس راویت میں کتنا دَم ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 'واہ' کو مغلوں سے خاصی نسبت رہی ہے۔ 'واہ' میں مغل گارڈن اور بعض تاریخی عمارات کا وجود اور بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی شہزادی لالہ رُخ کی قبر کی موجودگی اس نسبت کا ثبوت ہے۔

شیئر: