Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 رشتوں کے معاملے میں اردو دنیا کی ہر زبان سے آگے؟ 

سنسکرت میں صرف ایک عورت کو پچاس سے زیادہ ناموں سے پکارا جاتا ہے (فوٹو: پکسابے)
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں 
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا 
جناب منور رانا نے اردو اور ہندی کے تعلق سے جو رشتہ بیان کیا ہے، وہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ اردو اور ہندی کا بنیادی سانچہ اور ڈھانچہ ایک ہے۔ تاہم تین باتیں ان دونوں کے درمیان خط امتیاز کھینچتی ہیں: اول یہ کہ ’اردو‘ پر عربی و فارسی کا اثر ہے جب کہ ’ہندی‘ پر سنسکرت اور پراکرت زبانوں کی چھاپ ہے۔ 
دوم یہ کہ اردو رسم الخط عربی و فارسی سے ماخوذ ہے اور انہی کی پیروی میں دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے، جب کہ ہندی ’دیوناگری‘ لپی (رسم الخط) میں بائیں سے دائیں جانب لکھی جاتی ہے اور تیسری بات کو اگر شعری اصطلاح میں سمجھیں تو اردو سراسر ’آمد‘ اور ہندی محض ’آورد‘ ہے۔  
ہم آج جسے ’اردو‘ کہتے ہیں یہ کبھی ریختہ، ہندی، ہندوی اور ہندوستانی زبان کہلاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق نے ایک مقام پر ’اردو‘ کو ’ہندی‘ باندھا ہے: 
گرچہ ہندی در عذوبت شکراست 
طرزِ گفتارِ دری، شیریں تر است 
یعنی: اگرچہ ہندی (بمعنی اردو) حلاوت میں شکر کا مزا دیتی ہے، مگر فارسی طرز گفتار میں اردو سے زیادہ مٹھاس ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ اگر اردو ہی ’ہندی، ہندوی یا ہندوستانی‘ زبان تھی تو پھر جسے اردو کے مقابلے میں ’ہندی زبان‘ کہا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ 
دراصل اس کی حقیقت انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت میں پوشیدہ ہے، جنہیں اعتراض تھا کہ اردو قرآن کی زبان میں لکھی جاتی ہے، نتیجتاً اردو ہی میں سنسکرت کے بعض غیر ضروری الفاظ کی بھرمار اور رسم الخط کے اختلاف سے ’ہندی‘ کو وجود بخش گیا۔  
چوں کہ اردو اور ہندی ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، لہٰذا ان دونوں زبانوں میں غیر معمولی  مناسبت اور مطابقت کا پایا جانا فطری بات ہے۔ اسی مناسبت و مطابقت کی بنیاد ہی پر بعض کے نزدیک اردو و ہندی ماجائی بہنیں نہیں بلکہ حقیقتاً ایک ہی زبان ہے، دیکھیں دلی (انڈیا) کے اسرار جامعی کیا کہہ رہے ہیں: 
ہندی کی اک بہن ہے اردو ہے نام جس کا 
جس نے کہا غلط ہے یہ ایک ہی ہے ناری 

عمر دراز ہو جائے تو یہ ’دادی‘ یا ’نانی‘ بن جاتی ہے (فوٹو: پکسابے)

اردو و ہندی کے باہمی رشتے سے ایک دلچسپ بات ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ کہ ان دونوں زبانوں میں انسانی رشتوں کے حوالے سے جو وسعت پائی جاتی ہے وہ دنیا کی کسی بھی زبان سے بڑھ کر ہے۔ مثلاً انگریزی میں تایا، چچا، پھوپھا یا خالو کہنا ہو تو فقط انکل (Uncle) کہہ کر مدعا پالیتے ہیں، نتیجے میں اجنبی پر نہیں کُھلتا کہ یہاں انکل سے حقیقت میں کون سا رشتہ مراد ہے۔ 
اس کے برعکس اردو و ہندی میں سگے یا قریبی رشتوں کو اس تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس بات کو فقط ایک ’ناری‘ یعنی عورت کے تعلق سے پیدا ہونے والے رشتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 
یہ صنف نازک کسی کی ’بیٹی‘ اور کسی کی ’بہن‘ ہے۔ جب تک بچپنا ہے تب تک یہ ’بچی‘ ہے، مگر جب لڑکپن میں داخل ہوتی ہے تو ’لڑکی‘ بن جاتی ہے۔ پیا گھر سدھارنے پر یہ حسب تعلق ’بیوی، بھابھی، بہو اور پھر ساس‘ ہوتی ہے۔ 
رشتوں کے مزید پھیلنے پر یہی ناری کسی کی ’نند‘، کسی کی ’سالی‘ اور کسی ’سلج / سلہج‘ یعنی سالے کی بیوی کہلاتی ہے۔  
میکے یعنی ’ماں کے‘ تعلق سے اس ناری کا بھائی اگر باپ بنے تو یہ ’پھوپھی‘ اور جب بہن ماں بنے تو یہ ’خالہ‘ کہلاتی ہے،  یہ سسرال (سسر کا گھر) میں حسب رشتہ کسی کی ’جیٹھانی‘ تو کسی ’دیورانی‘ ہوتی ہے۔ پھر اسی نسبت یہ ’تائی‘ اور ’چچی‘ کہلاتی ہے۔ 
رب کی رحمت سے رشتہ عمر دراز ہو اور بچوں کی خوشیوں سے آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، تو یہ ’دادی‘ بن جاتی ہے، اور جس کی دادی بنتی ہے وہ ’پوتی‘ کہلاتی ہے۔ جب کہ بیٹی کی گود بھر جائے تو یہ ’نانی‘ اور بیٹی کی بیٹی ’نواسی‘ کہلاتی ہے۔ 
یہ بہت قریبی رشتوں ہیں جن کی تعداد ’اکیس‘ تک پہنچتی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ فقط ایک عورت کی نسبت سے پیدا ہونے والے انتہائی قریبی رشتے ہیں۔ 

یہ صنف نازک کسی کی ’بیٹی‘ اور کسی کی ’بہن‘ ہے (فوٹو: پکسابے)

ان بیان کردہ ’اکیس‘ مختلف رشتوں میں اگر بڑی، چھوٹی، منجھلی اور سنجھلی کا لحاظ کیا جائے تو رشتوں کی یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مثلاً بہن کو دیکھیں جو بڑی بہن، چھوٹی بہن، منجھلی اور سنجھلی بہن کہلاتی ہے، اس کے علاوہ انہیں حسب مراتب ’باجی، بڑی باجی،آپا، آپا بڑی، اپیا اور آپی‘ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔  
’بہن‘ کے علاوہ نند، بھابھی، سالی، چچی، تائی پھوپھی وغیرہ بھی وہ رشتے ہیں جن میں چھوٹی بڑی اور منجھلی سنجھلی کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر انہیں بھی شامل کرلیا جائے رشتوں کی یہ بہار پچاس کے ہندسے کے پار جا ٹھہرتی ہے۔ واضح رہے کہ رشتوں کی اس ففٹی میں پھوپھی زاد اور خالہ زاد وغیرہ شامل نہیں ہے 
اس کے علاوہ برصغیر میں خاص طور اردو دان طبقے کے ہاں بہو کے گھر آنے پر اُسے ’خورشید جہاں یا خورشید بیگم‘ جیسے خوبصورت نام دیے جاتے تھے۔ 
اوپر جو نام گنوائے گئے ہیں یہ عورت کے مختلف رشتوں کی نسبت سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سنسکرت میں صرف ایک عورت کو پچاس سے زیادہ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔  
اب سوال یہ کہ برصغیر میں رشتوں کو اتنی تفصیل سے بیان کرنے کے پیچھے کیا راز ہے؟ 
عرض ہے کہ شاخ در شاخ پھوٹتے ان رشتوں کی جڑیں اول مذہب اور دوم مشترکہ خاندانی نظام میں پیوست ہیں۔  
اب لفظ ’رشتہ‘ کی مناسبت سے اختر ہاشمی کا شعر ملاحظہ کریں: 
دل کا رشتہ بھی اگر سوچو تو کیا رشتہ ہے 
نبھ رہا ہے اسی رشتے کے اثر سے رشتہ 

شیئر: