Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ میں جزائر کی آباد کاری، ’تفریح بھی اور روزگار کے مواقع بھی‘

کراچی اپنے دامن میں سمندر سمیٹے ہوئے ہے جو ملک بھر سے آنے والے افراد کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اگر یہاں موجود جزیروں کو سیاحوں کے لیے آباد کرنے کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا تو ساحلی شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جائیں گے۔
وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے عندیہ دیا ہے کہ وفاق سندھ حکومت کے اشتراک سے غیر آباد جزیروں کو سمندری حیات اور ماحول کو متاثر کیے بغیر خوبصورت تفریح گاہوں میں تبدیل کرنے کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ 
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے بتایا کہ ’سندھ حکومت کے ساتھ مل کر غیر آباد جزیرے ڈنگی اور بنڈل سمیت دیگر پر کنکریٹ کی تعمیرات سے گریز کرتے ہوئے انہیں سیر و تفریح کے عمدہ مقامات میں تبدیل کرنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے عوام کو تفریحی سہولت کی فراہمی کے ساتھ مقامی لوگوں کے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں دو جڑواں جزائر کی ترقی کے لیے سال 2000 اور 2006 میں کوششیں کی گئی تھیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔
بعدازاں 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ملک ریاض کے توسط سے جزیرے پر ترقیاتی کام کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس تعمیر پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ان جزیروں کی آباد کاری کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومت آمنے سامنے آگئی تھی اور منصوبے کو روک دیا گیا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

اس کے بعد سابق وفاقی وزیر علی زیدی کو اس منصوبے پر بات کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان جزیروں کی آباد کاری کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومت آمنے سامنے آگئی تھی اور منصوبے کو روک دیا گیا تھا۔
صدارتی آرڈیننس جاری ہونے کے باوجود بھی ان جزیروں پر کام نہیں ہوسکا تھا۔ اب موجودہ وفاقی وزیر برائے بحری امور سینیٹر فیصل سبزواری ایک بار پھر سے اس منصوبے پر کام کرنے جا رہے ہیں۔  
فیصل سبزواری نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ان جزائر کو تفریح مقصد کے لیے آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس ضمن میں صوبائی حکومت سے بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ جزائر کے ڈویلپمنٹ کے علاوہ کراچی سے گوادر تک بھی لوگوں کو تفریح کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے جس کی فیزیبلٹی رپورٹ پر کام ابھی جاری ہے۔
فیصل سبزواری کے بقول حکومت کی کوشش ہے کہ سیاحوں کی تفریح کے لیے کیماڑی سے پورٹ قاسم تک ایک فیری سروس کا بھی آغاز کیا جائے۔
’پورٹ قاسم 49 کلو میٹر کا چینل ہے جہاں نئے کنٹینر ٹرملز، برتھ اور جیٹیز بنائی جاسکتی ہیں۔’پورٹ قاسم پر دستیاب انفراسٹریکچر تقریبا فل ہوچکا ہے اس لیے ایک نئے کنٹینر ٹرمنل کے لیے کنسٹلنٹ کے حصول کی خاطر اشتہار دیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس ٹرمینل کی تعمیر سے کئی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی جبکہ یہ ہمارا ایک اثاثہ بھی بن جائے گا۔‘
وفاقی وزیر فیصل سبزاواری سمجھتے ہیں کراچی پورٹ گنجان ضرور ہے لیکن اس ہر کثیرالمقآصد کام ہوسکتے ہیں۔ ’ٹرانس شپمنٹ اور کراس سٹفنگ کا آپشن ہمارے پاس موجود ہے ،حکومت پاکستان نے فی الحال گوادر میں ٹرانس شمنٹ اور سٹفنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

فیصل سبزواری نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ان جزائر کو تفریح مقصد کے لیے آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)ٌ

ان کا کہنا تھا کہ جبل علی اور دیگر پورٹس صرف سامان کی آمدورفت کے لیے استعمال نہیں کیے جاسکتے بلکہ وہاں پر اس سامان میں ویلیو ایڈیشن کرکے ری ایکسپورٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔
فیصل سبزواری نے بتایا کہ پاکستان میں مچھلی کے کاروبار حوالے سے بہت گنجائش موجود ہے لیکن جتنا ہم سمندر آلودہ کر رہے ہیں اس کے پیش نظر کوئی بھی مہذب ملک ہم سے مچھلی لینا بند کرسکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میں سندھ حکومت اور چند انٹرنیشنل ڈونرز سے بھی بات ہوئی ہے۔ سمندر پر سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگنے تھے لیکن کئی برسوں سے یہ منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے۔
فیصل سبزواری نے بتایا کہ فی الوقت دو تین ممالک میں ہی ہماری مچھلی جارہی ہے جبکہ ہماری مچھلی یورپی یونین کی بہت زیادہ کمپنز نہیں لے رہی ہیں اس لیے فش ہاربر پر اپنا انفراسٹکچر اپ گریڈ کرنا ناگزیر ہے جس کے لیے حکومت سندھ سے درخواست کی گئی ہے۔ 
فیصل سبزواری نے نشاندہی کی کہ کراچی کی بندرگاہیں شہر کا انفراسٹکچر استعمال کرتی ہیں اور جب منافع کمایا جا رہا ہے تو شہر کے انفراسٹکچر کو لوٹانا بھی چاہیے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تعاون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں بد قسمتی سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت آپس میں بات نہیں کرتی تھی لیکن میں چارج سمبھالنے کے بعد خود وزیراعلیٰ ہاؤس گیا ہوں اور صوبے میں بہتری کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ اب ہمارے افسران صوبائی حکومت کے عہدیداران سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ورکنگ ریلیشن قائم ہو رہا ہے۔‘

شیئر: