Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جزائر کو ملکیت میں لینے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا‘

بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اورصوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کے جزائر کو وفاقی ملکیت میں لینے سے متعلق قانون سازی سے پہلے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وفاقی حکومت کو اس معاملے پر بلوچستان کی حکومت اور جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
کوئٹہ میں اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ جلسہ ایک جمہوری عمل ہے، اگر اپوزیشن قانون کے دائرے میں اور ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے جلسہ کرنا چاہتی ہے تو اس وقت جمہوری حکومت ہے ہمیں جلسے پر کوئی اعتراض نہیں مگر ان کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کے رد عمل سے خود پریشان ہیں۔ ’یہ وہ جماعتیں ہیں جو بلوچستان کے اندر بھی کئی کئی بار حکمرانی کرچکی ہیں مگر ڈیلیور نہیں کرسکیں۔ عوام کو یہ بھی پتہ ہے کہ یہ دوبارہ آکر بھی بلوچستان اور پاکستان کو لوٹنے کے سوا کچھ نہیں دینگے۔‘

 

سردار یار محمد رند کے مطابق بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں منڈی لگنے کے الزامات اپوزیشن کی جماعتیں لگاتی ہیں۔ ’مگر دیکھا جائے کہ یہ منڈی کس نے لگائی ۔ایک الیکشن میں پیپلز پارٹی اور دوسرے الیکشن میں میاں نواز شریف کی ن لیگ نے منڈی لگائی تھی ۔امید ہے کہ اس دفعہ منڈی نہیں لگے گی اورشفاف طریقے سے سینیٹ انتخابات ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ زرداری کے دور میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو این ایف سی ایوارڈ سے آٹھ سو 50 ارب روپے ملے، یہ پیسے کہاں گئے۔ ’آج تک ان کرپٹ لوگوں کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیا جارہا۔ پورے پاکستان میں کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں، بلوچستان میں کیوں نہیں ہورہیں؟ جب تک ہم بلا تفریق احتساب نہیں کریں گے یہ کرپشن کم نہیں ہوگی۔‘
 انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں میری حکومت نہیں، میرے پاس صرف ایک وزارت ہے، ہم اپنی آواز کابینہ میں اٹھاتے ہیں، فیصلے کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ نیب اور باقی ادارے خود مختار ہیں، میں اس میں کچھ نہیں کرسکتا البتہ میں درخواست ضرور کرسکتا ہوں کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ‘
صوبائی مخلوط حکومت میں شامل اے این پی کی اپوزیشن کے جلسوں میں شرکت سے متعلق تحفظات پر سردار یار محمد رند نے کہا کہ کیونکہ ہم خود جام حکومت کے اتحادی ہیں اور وہ مرکزی حکومت میں ہمارے اتحادی ہیں، یہ فیصلہ ان کو کرنا چاہیے کہ اے این پی کو مزید بلوچستان میں اپنے ساتھ رکھیں یا نہ رکھیں۔ ’مرکزی حکومت جب بھی کہے گی تو ہم اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرائیں گے۔ ‘

یار محمد رند کے مطابق وہ اپنی آواز کابینہ میں اٹھاتے ہیں، فیصلے کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال پر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو جام صاحب ہیں وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں خود بہتر کچھ بتا سکیں گے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی بہت گنجائش ہے کہ اس حکومت کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے، کرپشن کو کم کیا جائے اور ترقیاتی فنڈزکو موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو وفاق کی تحویل میں دینے سے متعلق سوال پر سردار یار محمد رند کا کہنا تھا کہ انہیں اس قانون کے متعلق علم نہیں۔ ’مرکزی حکومت اور نہ ہی صوبائی حکومت نے ہمیں اعتماد میں لیا۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت کے سامنے ایک موقف رکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت اپنی جگہ مگر ہمار اتعلق بلوچستان کی دھرتی سے ہے۔

جام کمال کی حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال پر رند کا کہنا تھا کہ بہتری کی ابھی بھی بہت گنجائش ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

’مرکزی حکومت صوبائی حکومت اور بلوچستان کی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کوئی فیصلہ کریں تو یہ مرکز اورصوبے دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔‘
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ وہ دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالا ہے تب سے کوئی بد عنوانی نہیں ہوئی۔ ’یہ وہ محکمہ تھا جو بد عنوانی کے حوالے سے پورے بلوچستان میں مشہور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہ خود بد عنوانی خود کریں گے نہ کسی اورکو کرنے دینگے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں پر ایک بہت بڑی مافیا ہے جن کو بہت سارے اپوزیشن تو اپنی جگہ حکمران جماعت کے جو ہمارے اتحادی ہیں ان کی بھی سپورٹ ہے ۔

شیئر:

متعلقہ خبریں