Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جزیروں پر شہر سے کراچی ڈوب جائے گا؟

پاکستان کے سمندری پانی میں سینکڑوں کی تعداد میں جزائر موجود ہیں، جن میں سے 300 سے زائد  صوبہ سندھ سے متصل ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو سمندری تبدیلیوں کے باعث ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں اور ان کے کوئی نام نہیں۔ لیکن کچھ  بڑے اور مشہور ہیں۔
حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبہ سندھ کے دو جزیروں بھنڈر اور ڈنگی پر نئے شہر بسانے کے اعلان کے بعد ان جزیروں کی ملکیت اور یہاں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی صورت وفاقی حکومت کو ان تعمیرات کی اجازت نہیں دے گی۔
جزیروں کی ملکیت اور ان پر تعمیراتی کام کے متعلق صوبائی اور وفاقی حکومت کے تنازعے سے قطع نظر ماہرین نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جزائر کی آبادکاری کے بعد ساحلی شہروں ٹھٹھہ اور کراچی کے وجود کو خطرہ ہے۔
2015 میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشینوگرافی (این آئی او) کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے ایک پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سندھ کے ساحل پر واقع بدین اور ٹھٹھہ شہر کے 2050 تک ڈوبنے کا خدشہ ہے، جبکہ سمندر کے چڑھاؤ کی وجہ سے 2060 تک کراچی بھی ڈوب سکتا ہے۔
 اسی ادارے کی جانب سے مرتب کردہ ایک اور رپوٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ کراچی کے ساحل سے متصل جزائر شہر کے محافظ کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کی ہیئت کو تبدیل کرنا شہر کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
ماہی گیروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کے مطابق دریاؤں میں پانی کی کمی اور سمندر کے چڑھاؤ کے باعث انڈس ڈیلٹا (جہاں دریائے سندھ کا پانی سمندر سے ملتا ہے۔) کے جزائر ڈوب رہے ہیں۔ جب کہ مینگروز کے جنگلات کی کٹائی اور ساحل پر تعمیرات کی وجہ سے ماہی گیروں کی آبادیاں بھی اپنے قدیم علاقوں سے منتقل ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے سمندری پانی میں سینکڑوں کی تعداد میں جزائر موجود ہیں (اردو نیوز)

محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’سندھ کے ساحل سے متصل جزائر بننے کی اصل وجہ انڈس ڈیلٹا ہے، تقریباً یہ تمام جزیرے دریا کے ساتھ آئی مٹی اور ریت سے صدیوں کے عرصے میں بنے ہیں۔ جبکہ ڈیلٹا میں ہونے کی وجہ سے یہ مینگروز کے جنگلات سے بھرے ہوئے ہیں تاہم حکومت ترقی کے نام پر ان جنگلات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘
ماحولیاتی ماہر محمود عالم خان کے مطابق ساحل پر آباد شہر بالخصوص کراچی سے روزانہ سینکڑوں ٹن کچرا اور فضلہ سمندر میں ڈالا جا رہا ہے جس سے نہ صرف آبی حیات بلکہ جزائر کا ایکو سسٹم بھی متاثر ہو رہا ہے۔
 انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اب جزائر پر صاف پانی دستیاب نہیں رہا اور وہاں بھی کچرا جمع ہو رہا ہے۔‘
حکومت کی جانب سے آئی لینڈز اتھارٹی کے قیام اور کراچی سے متصل جزائر پر ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے آغاز پر اربن پلاننگ کے ما ہرین بھی متفق نظر نہیں آ رہے۔
ایسے ہی ایک اربن پلانر محمد توحید نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’ اگر کراچی سے متصل سمندر میں مینگروز کے جنگلات ختم کردیے جائیں تو 15 فیصد امکان ہے کہ شہر طوفان میں ڈوب جائے گا۔ لیکن یہ 15 فیصد خطرہ مول لینے کی بھی بھلا کیا ضرورت ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ گمان ہوتا ہے کہ جزائر پر شہر آباد کرنے کا فیصلہ محض ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا، ان علاقوں میں صدیوں سے آباد لوگوں کو نہیں۔‘

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اب جزائر پر صاف پانی دستیاب نہیں رہا (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا ’وہ ممالک جہاں زمین کی کمی ہے وہاں تو ایسے منصوبوں کی سمجھ آتی ہے، وہ بھی اگر باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے جائیں، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں (نیے) شہر بسانے کے لیے پہلے ہی بہت جگہ موجود ہے وہاں ایسے منصوبے شروع کرنا جس سے پہلے سے آباد شہر خطرے میں آجائے سمجھ سے باہر عمل ہے۔‘
بلوچستان کے سمندر کی  صورتحال بھی کچھ خاص مختلف نہیں تاہم وہاں ساحلوں کی تعداد سندھ کی نسبت خاصی کم ہے کیوں کہ وہاں ڈیلٹا موجود نہیں ہے، تاہم وہاں بھی زمینی تبدیلیوں کے باعث نئے جزیرے ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔
2013  میں بلوچستان میں 7۔7 ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا تھا جس کے بعد گوادر کے ساحل کے قریب ایک جزیرہ رونما ہوا تھا جو 90 میٹر لمبا، 40 میٹر چوڑا اور 20 میٹر اونچا تھا، لیکن 2019 میں ناسا کی جناب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا کہ یہ جزیرہ پانی میں ڈوب کے غائب ہوچکا ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر آصف انعام کا کہنا تھا کہ اس خطے میں جزائر کا بننا قدرتی عمل ہے، گزشتہ 15 سال کے عرصے میں مکران کے ساحل کے ساتھ تین جزیرے ابھر کر ڈوب چکے ہیں۔

ماہی گیروں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ مینگروز کی کٹائی وجہ سے ماہی گیروں کی آبادیاں بھی منتقل ہو رہی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

سائنسدانوں کے مطابق مکران کے علاقے میں میتھین گیس کے ذخائر ہیں اور زمینی تبدیلیوں کے باعث وہ گیس جب خارج ہوتی ہے تو مٹی کے آتش فشاں کی صورت میں نکلتی ہے، کبھی خشکی میں اور کبھی سمندر کے اندر، بسا اوقات مٹی اور پتھر کے یہ ٹیلے پانی کی سطح سے باہر نہیں آتے لہٰذا ان کی گنتی نہیں ہو پاتی لیکن یہ عمل بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لیے خاصا خطرناک ہے۔
وہ اس علاقے کی باقاعدہ نگرانی اور تازہ ترین معلومات پر مشتمل نقشے بنانے کے علاوہ یہاں موجود معدنیات کے ذخائر کو استعمال میں لانے پر زور دیتے ہیں۔
وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ ان جزائر کی آباد کاری سے کراچی اور دیگر بڑے شہروں پر انحصار کم ہو گا اور نیے شہروں میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

شیئر: