Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانونی عمل کے دوران سیاستدانوں کی جائیدادیں ضبط کیوں نہیں ہوتیں؟

عدالتی حکم میں سلمان شہباز کے 13 کمپنیوں میں شئیرز اور 29 بینک اکاؤنٹس بھی قرق کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک خصوصی عدالت نے حال ہی میں ملک کے وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز کی جائیداد قُرقی کا حکم دیا ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق سلمان شہباز کی چنیوٹ میں 200 کنال زرعی اراضی کو قُرق کیا گیا ہے۔ سپیشل کورٹ سینٹرل کے جج اعجاز اعوان نے نو صفحات پر مشتمل فیصلے میں ڈسٹرکٹ ریونیو آفیسر کو حکم دیا ہے کہ ’وہ سلمان شہباز کی چنیوٹ میں واقع زرعی اراضی کو ضبط کر لیں۔‘
اس کے علاوہ عدالتی حکم میں ’سلمان شہباز کے 13 کمپنیوں میں شیئرز اور 29 بینک اکاؤنٹس بھی قُرق کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔‘
عدالت نے یہ حکم وزیراعظم کے بیٹے کی جانب سے عدالتی ٹرائل کا حصہ نہ بننے پر جاری کیا ہے۔ اس سے قبل انہیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی سیاستدان یا ان کے خاندان کے کسی فرد کی جائیداد ضبطگی کے احکامات کسی عدالت نے جاری کیے ہوں۔
لیکن اس کے ساتھ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ کسی سیاستدان کی جائیداد ضبط ہونے کے بعد اگلے مراحل میں قومی خزانے میں جمع کروائی گئی ہو۔
دیوانی مقدمات کے ماہر اور سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل چوہدری اشتیاق احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ 30 سال میں تو ان کے سامنے ایسا کوئی کیس نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’اس بات کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام کو بھی سمجھنا ہوگا۔ جائیداد کو ضبط کرنے اور ریکور کرنے کا سب سے سخت قانون نیب کا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 1999 میں جب نیب آرڈیننس کا اجرا کیا تو اس وقت اس قانون کے تحت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت کئی سیاستدانوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں، لیکن بعدازاں جب وہ مقدمے ختم ہوئے تو جائیدادیں بھی واپس ہو گئیں۔‘

پاکستان میں جائیداد کی قُرقی اور نیلامی کا آخری واقعہ ملک کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ہوا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ’ایک تو مقدمات چونکہ سیاسی طور پر بنائے جاتے ہیں اس لیے اکثر مقدمات میں قانونی سقم موجود ہوتا ہے، جو اعلٰی عدالتیں بعد میں ختم کر دیتی ہیں۔ دوسرا پاکستان میں قانونی عمل بہت طوالت اختیار کر جاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں جائیداد کی قُرقی اور نیلامی کا آخری واقعہ ملک کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ہوا، جب 2019 میں ان کی جائیداد کی نیلامی پر عمل بھی ہوا، تاہم اس کے بعد عدالت نے حکم امتناعی جاری کر دیا۔
دیوانی اور بینکنگ جرائم کے ایک اور ماہر قانون دان ایڈووکیٹ محمد عثمان سمجھتے ہیں کہ ’سیاستدان قانون میں موجود سقم کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب ٹرائل کورٹ ایک فیصلہ سنا دے تو اس پر فوری عمل درآمد کی بجائے جائیداد کی قُرقی پر اجرا کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔ پھر عمل درآمد کی باری آتی ہے اس وقت تک اپیل دائر ہو کر اس پر حکم امتناعی آ جاتا ہے۔‘
’پہلے مقدمہ کمزور بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد قانونی عمل کی پیچیدگی اور طوالت رہی سہی کسر نکال دیتی ہے۔‘
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت نے قید کی سزا دینے کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبطگی کا حکم بھی دیا تھا، لیکن ابھی تک ان کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور اس پر عدالت کا حکم امتناعی بھی موجود ہے۔

پرویز مشرف نے 1999 میں جب نیب آرڈیننس کا اجرا کیا تو اس قانون کے تحت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

چوہدری اشتیاق کے مطابق ’ملکی قوانین میں سب سے زیادہ مقدمات میں جہاں عوام کی جائیدادیں ضبط ہوتی ہیں، وہ بینکنگ جرائم کی عدالتیں ہیں۔ کیونکہ وہاں زیادہ تر بینک اپنے کلائنٹس کے خلاف مقدمات کرتے ہیں، وہاں بھی سیاستدانوں سے زیادہ عوام کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں سیاست دانوں کے خلاف بات نہیں کر رہا لیکن حقائق یہی بتاتے ہیں چاہے وجوہات کچھ بھی ہوں آپ کوئی ایسی مثال نہیں ڈھونڈ سکتے کہ کسی سیاستدان کی کسی مقدمے میں جائیداد قانونی طور پر ضبط ہوئی ہو اور پھر وہ باقی کا عمل پورا کر کے قومی خزانے میں جمع ہوئی ہو۔‘

شیئر: