Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل دل پاکستان! ’چند نوجوانوں کی آواز جو قوم کی آواز بنی‘

وائٹل سائنز نے پہلی مرتبہ ’دل دل پاکستان‘ گایا تھا۔ فوٹو: فیس بک وائٹل سائنز
’دل دل پاکستان جان جان پاکستان‘ دل کی آواز تھی کچھ پاکستانی نوجوانوں کی جو گزرتے وقت کے ساتھ پوری قوم کی آواز بنی اور ایسی آواز بنی کے قومی ترانے کے بعد اس نغمے کو وہ مقام ملا جو ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ کہنا ہے پاکستان کے مشہور و معروف ملی نغمے بنانے والے بینڈ وائٹل سائنز گروپ کے رکن سلمان احمد کا۔
سلمان احمد نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 80 اور 90 کی دہائی میں ہر طرف مغربی اور پڑوسی ملک انڈیا کے گانوں کی دھوم تھی ایسے میں کچھ نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ملک میں ایسا میوزک بنایا جائے کہ پاکستان میں بسنے والوں کے پاس اپنے ملک کی موسیقی سننے کا آپشن ہو۔
’میں نے گھر کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان میں آکر میڈیکل کے شعبے سے ایک سال کا بریک لیتے ہوئے میوزک شروع کیا۔‘
انہوں نے اپنے میوزک کیریئر کے آغاز کے حوالے سے بتایا کہ لاہور میں ان کی ملاقات انجینیئرنگ کے شعبے سے وابستہ جنید نامی لڑکے سے ہوئی جو ایک میوزک گروپ کا حصہ تھے جنہیں اپنے لیڈ گٹارسٹ نصرت حسین کی جگہ کسی کی تلاش تھی۔ 
اس وقت یہ نوجوان پشاور یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تھے اور اپنا میوزک گروپ چلا رہے تھے جنہیں سلمان احمد نے بطور لیڈ گٹارسٹ جوائن کیا۔
سلمان احمد نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی وژن کی معروف شخصیت شعیب منصور کے تعاون سے پہلی بار ’دل دل پاکستان جان جان پاکستان‘ عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔
’اس نغمے نے ایسی دھوم مچائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ زبان زد عام ہوگیا۔ ناصرف ملکی سطح پر بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی موجود ہیں وہ اس نغمے کو ایک محبت اور احترام کی نظر سے پسند کرنے لگے۔‘ 

وائٹل سائنز پاکستان کا پہلا مشہور ترین میوزک بینڈ تھا۔ فوٹو: فیس بک وائٹل سائنز

انہوں نے کہا کہ قومی ترانے کے بعد ’دل دل پاکستان‘ کو اہمیت دی جانے لگی، یہ ایک ایسی خوشی تھی جس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
’وائٹل سائنز گروپ بنا اور پھر ہمارا پہلا البم ہی کامیاب ہوگیا۔ دل دل پاکستان سمیت دیگر نغمے لوگوں کو بہت پسند آئے اور دنیا بھر میں جانے کا موقع ملا اور سٹیج پر پرفارم کرنے کا ایک مزہ ایک جنون ہی الگ تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسا وقت آیا کہ ہم جہاں بھی جاتے تو لوگ ہم سے ملتے تھے ہمیں عزت دیتے تھے، ہمارے ساتھ تصاویر بناتے تھے۔ اس وقت میڈیا کا تو اتنا دور نہیں تھا تو لوگ ہمارے نام سے زیادہ ہمارے گائے نغمے سے ہمیں منسوب کر کے پکارا کرتے تھے۔‘
’آج اس نغمے کو گائے چار دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن آج بھی دنیا بھر میں کھیل کا کوئی میدان ہو، یا کوئی قومی سطح کی تقریب ہو ’دل دل پاکستان‘ کو جگہ ملتی ہے اور یہ ہمارے لیے اعلیٰ اعزاز ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس نغمے کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ بہت آسان سے الفاظ میں تھا اور باآسانی ہر ایک کو یاد ہو جاتا تھا۔
’اس کے علاوہ اس کے اشعار میں ملک کی تعریف اور علاقوں کی ایسی ترجمانی تھی کہ اس کا اثر ہی الگ تھا، جو ایک بار اسے سن لیتا بس وہ اس کا ہوجاتا۔‘
سلمان احمد کے مطابق جب میوزک کے شعبے میں قدم رکھا تو اس وقت آمریت کا دور تھا، سخت حالات تھے، اس کے علاوہ ہمارے مد مقابل بہت مضبوط انڈیا اور مغرب کا میوزک تھا جو ہمارے معاشرے میں پنجے جمائے ہمارے سامنے موجود تھا۔‘ 

سلمان احمد نے لیڈ گٹارسٹ کے طور پر گروپ کو جوائن کیا تھا۔ فوٹو: فیس بک وائٹل سائنز

’لیکن اقبال کا قول ذہن میں تھا کہ ’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔‘‘
سلمان احمد کا کہنا تھا ’دل دل پاکستان جان جان پاکستان ہمارے دل کی آواز تھی اور وقت نے ثابت کیا کہ ایسے حالات آئے کہ ہر شخص پاکستان کے میوزک کی طرف لوٹا اور ایسے لوٹا کہ 90 کی دہائی میں پاکستانی موسیقی ایک بار پھر سے عروج پر نظر آئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ برسوں پہلے گائے چند نوجوانوں کے اس نغمے میں آج بھی اتنی طاقت ہے کہ قوم کو ایک جگہ متحد کر دیتی ہے۔

شیئر: