Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوات میں ٹی ٹی پی کی مبینہ واپسی: کون کیا کہہ رہا ہے؟

ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری کی فون کالوں سے ان کا تعلق نہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن کے کئی علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کی مبینہ واپسی کے خلاف پچھلے کئی دنوں سے مظاہرے جاری ہیں۔
منگل کو بھی لوئر دیر کے علاقے میں ’امن جلسہ‘ منعقد ہوا جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کا مطالبہ کیا۔
اس سے قبل خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں بھی ٹی ٹی پی سے منسلک مبینہ عسکریت پسندوں کی واپسی کے خلاف متعدد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
پاکستانی فوج نے بھی سوات یا اس سے منسلک علاقوں میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کو ’مبالغہ آمیز‘ اور ’گمراہ کن‘ قرار دیا ہے۔
تاہم عسکریت پسندوں کی واپسی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں خصوصاً صوبے کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے متضاد بیانات جاری ہوئے۔
کیا سوات میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند واپس آگئے ہیں؟
گذشتہ ہفتے پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی اطلاعات چلتی رہی ہیں کہ سوات کے علاقے مٹہ میں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی واپسی ہوئی ہے جہاں ان کی پولیس سے جھڑپ کی بھی اطلاعات رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔
اس حوالے سے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب پاکستانی فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ ’انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی طرف سے ایک بیان میں یہ تصدیق کی گئی کہ سوات اور دیر کے پہاڑوں پر کچھ مسلح افراد کی موجودگی پائی گئی ہے۔
تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’زمین پر تصدیق کے بعد ان اطلاعات کو مبالغہ آمیز اور گمراہ کن پایا گیا۔‘
پاکستانی فوج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’عسکریت پسندوں کی موجودگی کہیں بھی برداشت نہیں کی جائے گی اور اگر ضرورت پڑی تو ان کے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

پاکستانی فوج نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بیان میں فوج کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ یہ عسکریت پسند شاید افغانستان سے واپس پاکستان اپنے علاقوں میں رہنے آئے تھے۔
پچھلے جمعے اس حوالے سے خیبر پختونخوا کی جانب سے بھی ٹی ٹی پی کے مبینہ عسکریت پسندوں کی سوات کے دور دراز علاقوں میں موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
پولیس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’خیبر پختونخوا پولیس وادی میں عسکریت پسندوں کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز سے واقف ہے۔ ہم اس سے بھی آگاہ ہیں کہ لوگوں میں یہ خدشات ہیں کہ کہیں سوات 2008 یا 2009 والے وقت کی طرف نہ لوٹ جائے جب وہاں عسکریت پسند حکمرانی کیا کرتے تھے۔‘
تاہم پولیس کی جانب سے عوام کو یہ بھی تسلی دی گئی کہ علاقہ سویلین انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے اور پولیس کسی بھی قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
خیبر پختونخوا کی حکمراں جماعت پی ٹی آئی کیا کہتی ہے؟
پاکستانی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات گذشتہ کئی ماہ سے افغانستان میں طالبان حکومت کی چھتری تلے جاری ہیں اور ان مذاکرات کے نتیجے میں لڑائیاں نہ صرف رک گئی ہیں بلکہ جنگ بندی بھی نافذ ہے۔
منگل کو خیبر پختونخوا کے وزیراعلی محمود خان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ خیبر پختونخوا اور خصوصاً ٹانک کے علاقے میں گذشتہ روز پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے میں کالعدم ٹی ٹی پی مخالف گروہ ملوث ہیں۔
واضح رہے ٹانک میں ہونے والے حملے میں دو پولیس اہکار ہلاک ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بھتہ خوری کے واقعات اور پولیس پر حملے مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے ہورہے ہیں۔‘

سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی ان کے رہنماؤں کو دھمکیاں دے رہے ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سوات کے حالات پر بات کرتے ہوئے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ’دہشتگردوں کی دوبارہ منظم ہونے کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں۔‘
ایک جانب تو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے معاون خصوصی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سوات میں حالات کنٹرول میں ہونے کی خبر دے رہے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور دیگر رہنما بلکل متضاد بیان جاری کررہے ہیں۔
دس اگست کو ایک پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسند ان کے رہنماؤں کو ہدف بنارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے وزیر اور میرے ایم پی ایز مجھے بتارہے ہیں کہ انہیں دھمکیاں آرہی ہیں اب ٹی ٹی پی کی طرف سے۔ اس کے اوپر بھی مجھے حیرت ہے جن دنوں ٹی ٹی پی متحرک تھی تو وہ کہتی تھی کہ ہم امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے خلاف ہیں۔‘

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں حملوں کو ٹی ٹی پی مخالف گروہوں کی کارروائیاں قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’یہاں (خیبر پختونخوا) میں تو ایک ایسی حکومت ہے جو ایک آزاد پاکستان چاہتی ہے تو اس کو کیوں ہدف بنایا جارہا ہے؟ مجھے اس میں بھی ایک سازش نظر آرہی ہے۔‘
اس سے قبل پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر بھی 11 اگست کو پشاور ہائی کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کرچکے ہیں کہ ان کے پارٹی رہنماؤں کو بھتے کے لیے کالیں اور دھمکیاں موصول ہورہی ہیں۔
ٹی ٹی پی کیا کہتی ہے؟
اس حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی ترجمان کی جانب سے 13 اگست کو اردو نیوز کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ہم اس بات کو بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین نے کبھی بھی اپنے علاقوں سے مکمل انخلاء نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے وزیرستان سے لیکر سوات تک کسی نہ کسی شکل میں اپنا مسلح وجود برقرار رکھا ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنماؤں کو دھمکیاں دینے کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کا بھتہ خوری کے لیے کی جانے والی دھمکی آمیز کالوں سے کوئی تعلق نہیں۔

شیئر: