Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بگڑتی معاشی صورتحال، بنگلہ دیش بھی سری لنکا بننے جا رہا ہے؟

ایندھن کی قیمتیں بڑھنے پر بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر احتجاج بھی ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
جنوبی ایشیا کے ملک بنگلہ دیش کو ان دنوں معاشی مسائل کا سامنا ہے جس پر ماہرین نے خدشات ظاہر کیے ہیں یہاں بھی سری لنکا جیسا بحران سر اٹھا سکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں بنگلہ دیش کے معاشی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ایسے کچھ اہم امور اور وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے حالات یہاں تک پہنچے۔
اخبار نے ایک صنعت کار محمد شریف سرکر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی فیکٹری ہر لحاظ سے ایک ماڈل ہے، جو دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے اشولیہ میں واقع ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین و مرد اپنی سلائی مشینوں کے سامنے بیٹھے ہیں، مگر کام نہیں ہو رہا کیونکہ بجلی نہیں ہے اور اندھیرے کے ساتھ ان کی مشینیں بھی کام نہیں کر رہیں۔
اشولیہ ملک کے اس حصے میں واقع ہے جہاں حکومت کی جانب سے بجلی کی سپلائی کم کی گئی ہے۔
اسی طرح ایندھن کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور جنریٹر پر کام بہت مہنگا پڑتا ہے۔
بجلی بندش کا حل فیکٹری مالک نے یہ نکالا ہے اس وقت میں کارکنوں کو لنچ کے لیے چھٹی دے دی جاتی ہے۔
سرکر کا کہنا ہے کہ ’اگر اسی طرح چیزوں کی قیمتوں بڑھتی رہیں تو شعبہ بری طرح متاثر ہو گا جس سے کارکنوں کا بھی نقصان ہو گا۔‘
سرکر کی فیکٹری بھی ان کارخانوں میں شامل ہے جس نے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ اس سے قبل بنگلہ دیش ایک انتہائی پسماندہ ملک تھا۔

وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے جولائی میں آئی ایم ایف سے قرض کے لیے رابطہ کیا (فوٹو: اے ایف پی)

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اعدادوشمار کے مطابق وہ چین اور ویتنام کے بعد ملبوسات کے تیسرے بڑے برآمدکنندہ کے طور پر سامنے آیا اور وہاں لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا۔
جنوبی ایشیا کے اس خطے، جس میں انڈیا، پاکستان، سری لکان اور بنگلہ دیش واقع ہیں، یہاں تقریباً دو ارب لوگ رہتے ہیں، تاہم ان ممالک نے کافی کوششوں سے اپنی برآمدات بڑھائیں۔
ماضی میں انتہائی غریب رہنے والا بنگلہ دیش گارمنٹس کے شعبے میں پڑوسیوں سے آگے نکلا، تاہم آج کل اس کے 16 کروڑ لوگوں کو توانائی کے بحران کے علاوہ ایندھن اور خوراک کی اشیا میں اضافے کا بھی سامنا ہے جس کی وجوہات میں کورونا وبا کے علاوہ یوکرین پر روس کا حملہ بھی شامل ہے۔
توانائی کی کمی کے باعث کاروباری اداروں کے امپورٹ بل بڑھ گئے ہیں اور ان کو ادائیگیاں کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
جنوبی ایشیا کے جن ممالک کو معاشی بحران کا سامنا ہے ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہاں کی حکومتوں اخراجات کے معاملے میں سری لنکا کی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بنگلہ دیشن میں سخت محنت سے حاصل کیے گئے فوائد ریورس ہونے کے خدشات ہیں جبکہ وہ ایک ایسے سنگم پر واقع ہے جہاں چین اور انڈیا کے مفادات ٹکراتے ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دونوں ہی بیجنگ کے بڑے مقروضوں میں سے ہیں جبکہ انڈیا اپنے پڑوسیوں پر چین کے اثرونفوذ پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ اس بحران سے اس کا فائدہ ہو گا۔
ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار مارک مالوچ  براؤن کہتے ہیں کہ ’یہ بحران مختلف معاشی ماڈلز رکھنے والے ممالک کے لیے اذیت ناک ہے۔‘

سری لنکا میں معاشی بحران پیدا ہونے شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’بنگلہ دیش جس کی معشیت میں ملبوسات کی صعنت کا اہم کردار ہے، اس کو معاشی حالات قتل کرنے جا رہے ہیں۔‘
سری لنکا پچھلی دو دہائیوں کے دوران اس پہلے ایشیائی ملک کے طور پر سامنے آیا جو ڈیفالٹ کر گیا۔
صدر گوٹابایہ راجا پاکسے کی معاشی بدانتظامی نے ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا تھا اور ان کو جولائی میں ملک سے فرار ہونا پڑا۔
اسی طرح پاکستان جہاں سابق وزیراعظم عمران خان پر مقدمات درج کیے گئے، میں بھی سیاسی بے یقینی بڑھ رہی ہے اور اس کی معیشت کو آئی ایم ایف کی گرانٹ نے دیوالیہ ہونے سے بچایا، اسی طرح نیپال اور مالدیپ بھی وہ ممالک ہیں جن کو عالمی سطح پر بڑھتے افراط زر سے معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس سے قبل بنگلہ دیش اپنے بہترین برآمدات کی بدولت حالیہ معاشی جھٹکوں سے بچا رہا تاہم وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے جولائی میں آئی ایم ایف سے قرض کے لیے رابطہ کیا جس کا مقصد زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے انتظامات کرنا تھا۔
بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے ساڑھے چار ارب ڈالر کی رقم لینا چاہتا ہے جبکہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت دیگر سے چار ارب ڈالر کا مطالبہ کر رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی ترقی میں ملبوسات کی صنعت نے اہم کردار ادا کیا (فوٹو: اے ایف پی)

ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد احتجاج ہونے پر بنگلہ دیش کی حکومت نے سکولوں اور دفاتر میں کام کا دورانیہ کم کر دیا ہے تاکہ توانائی کی بچت ہو جبکہ لگژری اشیا کی درامد پر بھی پابندی لگائی۔
جنوبی ایشیا کے ممالک ایندھن کے لیے زیادہ تر دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں، جیسا کہ خام تیل، کوئلہ وغیرہ، جبکہ خوراک اور پکانے کا تیل بھی زیادہ تر دوسرے ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔
جولائی میں بنگلہ دیش درآمدات میں کمی کے باعث اپنے ڈیزل پاور پلانٹس بند کرنے پر مجبور ہوا۔
بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ اے ایچ ایم مصطفٰی کمال کا کہنا ہے کہ ان حالات میں بھی بنگلہ دیش کو کوئی خطرہ نہیں، بنگلہ دیش میں ایسے حالات نہیں جیسے سری لنکا میں پیدا ہوئے۔
ان کے مطابق ’قرض دہندگان ہمارے منصوبوں سے واقف ہیں اور ہماری بیلنس شیٹس سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔‘

شیئر: