Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان پر پابندی، پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر ’جنگ‘ کیسے لڑے گی؟ 

خاتون مجسٹریٹ کو مبینہ دھمکی دینے پر عمران خان کی تقریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اگست 2018 میں بننے والی سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت رواں سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوگئی تھی۔
اب ملک میں ایک اتحادی حکومت قائم ہے جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے براجمان ہیں۔  
حکومت ختم ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں فوری نئے انتخابات چاہتے ہیں اور اس مطالبے کو پورا کروانے کے لیے ان کی جماعت نے جارحانہ سیاست کی راہ اختیار کی۔  
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں عمران خان نے جلسوں سے خطاب کیا جس کا مقصد حکومتی اتحاد اور ’نیوٹرلز‘ کو یہ بتانا تھا کہ عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔  
خیال رہے کہ جب سابق وزیراعظم عمران خان لفظ ’نیوٹرلز‘ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اخذ کی جاتی ہے۔  
اگست کی شروعات میں عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل پاکستان کے نجی نیوز چینل ’اے آر وائے‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسے جملے کہہ گئے جسے فوج کو اپنے افسران کے خلاف اکسانے کے مترادف قرار دیا گیا۔ 
9 اگست کو شہباز گل کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد سے شہباز گل اور ان کے پارٹی رہنماؤں کی طرف سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔  
شہباز گل کا پہلا جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد جب اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت کی جانب سے انہیں دوبارہ ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی۔  
20 اگست کو خود عمران خان نے ایک تقریر میں اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسلام آباد کے سینیئر پولیس افسران اور ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ تیار ہو جائیں آپ کے خلاف بھی ہم ایکشن لیں گے۔‘  

پی ٹی آئی نے الزام لگایا ہے کہ ’یوٹیوب کو عمران خان کی تقریر کے دوران تقریباً 40 منٹ تک ڈاؤن رکھا گیا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس تقریر کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی چینلز کو حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں ہدایت کی گئی کہ آئندہ پی ٹی آئی چیئرمین کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔  
اسی دوران عمران خان کے خلاف پولیس افسران اور خاتون جج کو دھمکیاں دینے پر انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں عمران خان کو یکم ستمبر تک ضمانت بھی مل چکی ہے۔  
عمران خان کی تقاریر کو براہ راست نشر کرنے پر عائد پابندی کو ان کی جماعت نے عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ 

براہ راست تقاریر پر پابندی کے بعد پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا ہے؟  

سابق وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگنے کے بعد ہم نے اپنے آفیشل یوٹیوب چینل کو جلسوں اور تقاریر لوگوں تک پہنچانے کے لیے پہلا ذریعہ بنایا۔‘  
’ہم نے اپنے یوٹیوب چینل کا سورس سب کو دیا اور فیصلہ کیا ہے کہ ان تقاریر کو نشر کرنے والے یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز کو کاپی رائٹ کلیمز نہیں بھیجے جائیں گے۔‘  

انٹرنیٹ قوانین کی نگرانی کرنے والے ایک ادارے کے مطابق ’ایسا بالکل ممکن ہے کہ پی ٹی اے نے یوٹیوب بلاک کی ہو۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اظہر مشوانی کے مطابق ان کی جانب سے یہ ہدف طے کیا گیا تھا کہ کم سے کم 500 یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز پر عمران خان کی تقاریر اور پارٹی کے جلسے نشر ہوں۔  
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے ہدف پورا کرلیا اور تقریباً 700 فیس بک پیجز اور یوٹیوب چینلز پر عمران خان کی تقریر نشر ہوئی۔‘  
21 اگست کو عمران خان نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا اور اسی خطاب کے دوران سوشل میڈیا پر متعدد صارفین کی جانب سے دعوے سامنے آئے کہ وہ یوٹیوب تک رسائی حاصل نہیں کر پارہے۔  
عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب سے بھی یہ الزام دہرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’یوٹیوب عمران خان کی تقریر کے دوران تقریباً 40 منٹ تک ڈاؤن رہی۔‘  
انٹرنیٹ کے معیار اور اس کی لوگوں تک رسائی کی نگرانی کرنے والے ادارے ’نیٹ بلاکس‘ نے یوٹیوب کی مبینہ بندش کو نوٹ کیا۔  
لندن میں واقع ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’نیٹ بلاکس کا میٹرکس تصدیق کرسکتا ہے کہ 21 اگست 2022 کو پاکستان میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی متعدد کمپنیوں پر یوٹیوب تعطل کا شکار رہی۔‘  

پی ٹی آئی کے مطابق ’لیاقت باغ میں عمران خان کی تقریر 700 فیس بک پیجز اور یوٹیوب چینلز پر نشر ہوئی‘ (فائل فوٹو: پکس فار فری)

’نیٹ بلاکس‘ نے تاہم اس بات کی وضاحت بھی کہ یوٹیوب تمام نیٹ ورکس پر بند نہیں ہوئی تھی۔ ’نیٹ بلاکس‘ نے یہ بھی کہا کہ ’رسائی دوبارہ تقریر ختم ہونے کے بعد بحال ہوگئی تھی۔‘  
کیا حکومتی ادارے نے یوٹیوب تک رسائی معطل کی؟  
پاکستان میں انٹرنیٹ کے نگران ادارے ’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی‘ (پی ٹی اے) نے اس حوالے سے باضابطہ بیان تو جاری نہیں کیا لیکن ادارے کے ایک افسر نے یوٹیوب بند کرنے کے الزام کی تردید کی۔  
’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے پی ٹی اے کے افسر کا کہنا تھا کہ ’یوٹیوب کو بالکل بند نہیں کیا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ پیمرا کی پابندی کی وجہ سے لوگ ٹی وی پر عمران خان کو نہ دیکھ پا رہے ہوں اور ان کی بڑی تعداد یوٹیوب پر چلی گئی ہو جس کے باعث یوٹیوب کی سروس تعطل کا شکار ہوئی ہو۔‘  
پاکستان میں انٹرنیٹ اور اس سے متعلق قوانین کی نگرانی کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے پی ٹی اے کے افسر کے بیان کو ’شک کی بات‘ قرار دیا۔  
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بالکل ممکن ہے کہ پی ٹی اے نے یوٹیوب بلاک کی ہو۔‘  

’پی ٹی اے نے عمران خان کی تقریر کے دوران یوٹیوب بند کرنے سے متعلق کوئی واضح بیان نہیں دیا‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان کے کچھ حصے میں یوٹیوب چل رہی ہو اور کچھ حصے میں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں انٹرنیٹ کے دو انٹری پوائنٹس ہیں ایک پی ٹی سی ایل اور دوسرا ٹرانس ورلڈ۔‘  
اسامہ کے مطابق ’پی ٹی اے پہلے کسی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کے لیے انٹرنیٹ پرووائیڈرز کو احکامات جاری کرتا تھا لیکن اب ان کے پاس ویب مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے جس کے تحت وہ ایک فلٹر کا استعمال کرکے خود بھی کچھ ویب سائٹس بلاک کرسکتا ہے۔‘  
ان کے خیال میں ایسا ہوسکتا ہے کہ ’کچھ جگہ یوٹیوب بند ہوگیا ہو اور کچھ حصے میں وہ ایسا نہ کرپائے ہوں۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی اے کی طرف سے کوئی واضح بیان آنے تک اس حوالے سے صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے بیانیے کو حکومت کیسے کاؤنٹر کرے گی؟  
پی ٹی آئی کے ایک سے زائد ارکان نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو پاکستان میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی سروس معطل کی جاسکتی ہے۔  

وزیراعظم کے فوکل پرسن ڈیجیٹل میڈیا کے مطابق ’حکومت ڈس انفارمیشن کا سدباب کرنے کے لیے سوشل میڈیا قوانین استعمال کرے گی‘ (فائل فوٹو: احمد جواد ٹوئٹر)

عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی کی جانب سے کارکنوں اور حامیوں کو یہ پیغام دیا جاچکا ہے کہ ایسے موقعے پر فوراً بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچا جائے۔‘  
پی ٹی آئی پر اکثر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ ان کے لوگ سوشل میڈیا پر منظم پروپیگنڈا کا حصہ ہیں۔  
اظہر مشوانی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ہر وہ شخص جس نے عمران خان کی تصویر لگائی ہوئی ہے وہ پی ٹی آئی کا باضابطہ طور پر حصہ نہیں اور نہ ہی پارٹی ان کے اعمال کی حمایت کرتی ہے۔‘  
اس حوالے سے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا احمد جواد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت کا کام کسی سیاسی جماعت کے بیانیے کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ کارکردگی دکھانا ہوتا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’تاہم حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ڈس انفارمیشن (غلط معلومات) کا سدباب کرے۔ اگر کوئی ڈس انفارمیشن پھیلائے گا تو ہم اس کا سدباب کریں گے۔‘  

پی ٹی آئی کے مطابق ’عمران خان کی تقاریر نشر کرنے والے یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز کو کاپی رائٹ کلیمز نہیں بھیجے جائیں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

احمد جواد کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کی حکومت یہ خیال رکھتی ہے کہ کسی بھی طرح اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ لگے۔‘
وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا نے کہا کہ ’حکومت ڈس انفارمیشن کا سدباب کرنے کے لیے موجودہ سوشل میڈیا قوانین کا استعمال کرے گی۔‘  
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے قوانین ماننے کی پابند ہیں۔‘  
’ایسے قوانین ترکی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک میں بھی بنائے گئے ہیں اور ہم ان قوانین کے ذریعے ان کمپنیوں کو پاکستان میں رائج قوانین کے تابع کریں گے۔‘  
انہوں نے پی ٹی آئی پر ’ڈس انفارمیشن‘ پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے مزید کہا کہ ’ان قوانین کے ذریعے ہم پاکستان میں ڈس انفارمیشن کو روکیں گے لیکن یہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔‘  

شیئر: