Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی دمتری موراتوف کو دیا گیا نوبل انعام ’سیاسی‘ تھا: صدر پوتن

حکام نے یوکرین میں ماسکو کے حملے کے آغاز کے بعد سے میڈیا پر دباؤ بڑھا دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے سب سے بڑے آزاد اخبار نووایا گزیٹ کے چیف ایڈیٹر دمتری موراتوف کو امن کا نوبل انعام دینے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں دیا گیا نوبل انعام ’سیاسی‘ تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدر پوتن نے بحر الکاہل کے بندرگاہی شہر ولادی ووستوک میں ایک اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہمارے شہری کو امن کا نوبل انعام ملا ہے لیکن میری رائے کے مطابق نوبل کمیٹی نے انسانی ہمدردی کے اس شعبے میں نوبل انعامات کی اہمیت کو بڑی حد تک مسترد کر دیا ہے اور اس کی قدر میں کمی کی ہے۔‘
ولادیمیر پوتن نے سابق امریکی صدر باراک اوباما کو 2009 میں امن کا نوبل انعام دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایسے بہت سے معاملات کو جانتے ہیں جب فیصلے خصوصی طور پر موجودہ سیاسی صورت حال کے زیر اثر کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے کرنے والوں کے لیے یہ کوئی اعزاز نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ نوبل انعام یافتہ کیوں ہیں؟ انہوں نے امن کے دفاع کے لیے کیا کیا سوائے اس کے کہ دنیا کے بعض خطوں میں فوجی کارروائی شروع کی جس میں وہ اس وقت ناکام ہو گئے تھے جب وہ صدر تھے۔‘
روس کے آزاد میڈیا کو حالیہ برسوں میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، حکام نے فروری میں یوکرین میں ماسکو کے حملے کے آغاز کے بعد سے یہ دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔
حملے کی میڈیا کوریج پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد بہت سے آزاد اداروں نے بیرون ملک سے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
روس چھوڑنے والے صحافیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر صدر پوتن نے کہا کہ وہ ’چھوڑنے کے قابل ہونے پر خوش ہیں‘ کیونکہ انہوں نے ’ہمیشہ ہمارے ملک کے خلاف کام کیا ہے۔‘
صدر ولادیمیر پوتن نے روسی عدالت کی طرف سے ایک معزز سابق دفاعی رپورٹر کو غداری کے الزام میں 22 سال کے لیے جیل بھیجنے کے فیصلے کی بھی حمایت کی اور کہا کہ ان کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔
پوتن نے کہا کہ ایوان سیفرونوف نے نہ صرف صحافتی سرگرمیوں سے پیسہ کمایا بلکہ مواد اکٹھا کرکے مغربی انٹیلی جنس سروس تک پہنچایا۔
32 سالہ سفرونوف کو پیر کے روز ریاستی راز افشاں کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

شیئر: