Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیلاب زدگان کے لیے امدادی اشیا کا انتخاب کیسے کیا جا رہا ہے؟

پاکستان میں گزشتہ ماہ آنے والے سیلاب سے ملک کے تین صوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں تعمیر نو اور بحالی کی کارروائیاں جاری ہیں۔
اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے پاکستان میں امدادی سامان پہنچ رہا ہے جسے پاکستانی ادارے متاثرین تک پہنچا رہے ہیں، تاہم امدادی سامان میں کون سی اشیا شامل کرنی ہیں اس کا تعین مختلف ممالک مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق انفرادی طور پر سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے اکثر افراد کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان اداروں سے رابطہ کیا جائے جو فیلڈ میں موجود ہوتے ہیں، تاکہ پتا لگایا جا سکے کہ متاثرین کو کس چیز کی ضرورت ہے۔

اس وقت پاکستان میں کون سی امدادی اشیا آ چکی ہیں؟

پاکستان میں حکومتی اندازوں کے مطابق سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے اور متاثرہ علاقوں میں زندہ بچ جانے والے افراد اپنے مکانوں، کاروبار، فصلوں اور جانوروں سے محروم ہو چکے ہیں اور بڑی تعداد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز ستی کا کہنا تھا کہ امدادی سامان کی ترسیل بہت اہم ذمہ داری ہے اور اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر سے مالی امداد کے علاوہ امدادی سامان پہنچ رہا ہے۔ 
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز ستی کے مطابق منگل تک پاکستان میں 20 ممالک سے امدادی اشیا اور عملے پر مشتمل 114 فلائٹس آ چکی ہیں۔ 48 فلائٹس سے آنے والا سامان متعلقہ ادارے جیسے یوایس ایڈ، یونیسف، یو این ایچ سی آر اور ریڈ کراس خود متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ان فلائٹس کے ذریعے آنے والے سامان میں تقریبا 17 ہزار ٹینٹس، تین ہزار ترپال، 37 ہزار کمبل، 11 ہزار فوڈ پیکٹس، 182 ٹن خشک راشن، 30 ٹن ادویات اور 58 کشتیاں شامل ہیں۔‘
این ڈی ایم اے کے مطابق ان فلائٹس کے علاوہ ترکیہ سے دو ٹریننیں امدادی سامان لے کر دالبندین پہنچ چکی ہیں جبکہ چھ اور ٹرینیں راستے میں ہیں۔ ان ٹرینیوں میں خیمے، کمبل اور خوراک کے پیکٹس شامل ہیں۔
اس کے علاوہ تاجکستان کی جانب سے 86 ٹرکوں پر مشتمل ایک قافلہ پاکستان پہنچا ہے، ان میں کمبل، خیمے، سیمنٹ، خوراک اور شیٹس اور گھروں کے اندر جلانے والا کوئلہ شامل ہے۔ ترکیہ، قطر، فلسطین کی جانب سے ڈاکٹرز کی ٹیمیں پاکستان پہنچی ہیں اور فیلڈ میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
ڈنمارک کی جانب سے ایک واٹر پیوریفیکیشن پلانٹ پہنچایا گیا جو سندھ میں کام کر رہا ہے جبکہ فرانس کی جانب سے 75 ڈی واٹرنگ پمپ پاکستان آئے ہیں۔ 
لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز ستی کا مزید کہنا تھا کہ امدادی سامان کی ترسیل بہت اہم ذمہ داری ہے اور اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے سعودی عرب سے انسانی امداد لے کر دو طیارے کراچی میں اترے تھے۔ (فوٹو: ایس پی اے)

’اس کے علاوہ این ڈی ایم اے خیمے، مچھر دانیاں، راشن پیکٹس اور پینے کا پانی خود خرید کر بھی متاثرہ علاقوں تک پہنچا رہا ہے۔‘
این ڈی ایم اے کے مطابق اس وقت متاثرہ علاقوں میں خوراک خاص کر بچوں کی خوارک، ادویات، ہیلتھ سروسز، ویکیسین، فیلڈ ہسپتالوں کے علاوہ آنے والی سردیوں کے لیے کمبل رضائیوں کی شدید ضرورت ہے۔

بین الاقوامی اداروں کے تجربے کا استعمال

حکومت اور این ڈی ایم اے کے علاوہ بین الاقوامی فلاحی تنظیمیں بھی پاکستان میں امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو فضائی پل کے ذریعے بھی امدادی اشیا فراہم کی گئی ہیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی نے بتایا کہ ’پاکستان میں بھیجی جانے والی اشیا کنگ سلمان ریلیف کی جانب سے چنی جاتی ہیں جسے یمن سمیت دیگر آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں بھیجی جانے والی امداد میں خیمے، ادویات، خوراک کا سامان، کمبل اور مچھر دانیاں شامل ہیں۔‘
سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ ’سینٹر کسی بھی علاقے کی ضروریات کا تخمینہ لگا کر وہاں بھیجی جانے والی اشیا کا انتخاب کرتا ہے۔‘
گزشتہ ہفتے سعودی عرب سے انسانی امداد لے کر دو طیارے کراچی میں اترے تھے۔

حکومتی اندازوں کے مطابق سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے پاکستان میں شاہ سلمان سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد ایم العثمانی کے ہمراہ صوبہ سندھ میں واقع سہون شریف میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا تاکہ متاثرین میں امدادی اشیا تقسیم کی جا سکیں۔
پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق جون کے وسط سے اب تک سیلاب نے 18 لاکھ گھروں اور متعدد سڑکوں کو نقصان پہنچایا ہے، تقریباً 400 پل بھی تباہ ہوئے ہیں۔
سیلاب سے ملک بھر میں اب تک 1508 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں ایکڑ اراضی زیر آب آ گئی ہے۔ مجموعی طور تین کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

شیئر: