Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خود خاتون جج کے پاس جا کر معافی مانگنے کو تیار ہوں‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں خاتون جج سے معافی مانگنے کی پیشکش پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کر دی ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے عمران خان کے خاتون جج سے معافی مانگنے کی پیشکش پر انہیں بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔  
توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پیش ہوئے تو وہ اپنی ساری توجہ عدالتی کارروائی پر مرکوز رکھنا چاہتے تھے۔
کمرہ عدالت میں پہنچنے پر صحافیوں نے جب عدالت لگنے سے پہلے ان سے سوالات کیے تو ان کا یہی جواب تھا کہ ’مجھے کیس پر توجہ دینے دیں۔‘  
صحافیوں نے سابق وزیراعظم سے کیس سے ہٹ کر بھی سوال کیے گئے۔
بطور سابق کرکٹر ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جب ان سے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے 17 سال بعد دورہ پاکستان سے متعلق سوال کیا گیا تو عمران خان نے سوال تو بڑے دلچسپی سے سنا لیکن جواب میں انہوں نے یہی کہا کہ ’مجھے کیس پر توجہ مرکوز کرنے دیں، اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔‘
جس کے بعد عمران خان اپنے معاون وکیل بیرسٹر سلمان صفدر سے مشاورت کرنے لگے۔
سابق وزیراعظم نے اپنے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آ’ج پھر پوری پولیس کی فوج تعینات کر دی ہے، میں بڑی مشکل سے اندر گھسا۔‘
اس مکالمے کے بعد عمران خان اور بیرسٹر سلمان صفدر سرگوشیوں میں گفتگو کرنے لگے۔ 

عمران خان نے خاتون جج کے لیے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر پہنچے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘آج ہم صرف چارج شیٹ پڑھ کر سنائیں گے۔‘  
جس پر حامد خان نے کہا ’مائی لارڈ میرے موکل گزشتہ سماعت پر بھی بات کرنا چاہتے تھے، وہ اس عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتے ہیں ان کو بات کرنے کی اجازت دی جائے۔‘  
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو مخاطب کر کے انہیں بات کرنے کا کہا۔ اس پر عمران خان روسٹرم پر آئے اور گفتگو شروع کی۔
اپنی گفتکو کے آغاز میں ہی سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’پہلے ایک منٹ میں تو یہ بات واضح کر دوں کہ میری ساری جدوجہد آزاد عدلیہ کے لیے رہی ہے، میری جماعت کا نام ہی تحریک انصاف ہے میں عدلیہ کی توہین کا سوچ ہی نہیں سکتا۔‘
عمران خان نے ججز کے سامنے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ عدالت سمجھتی ہے کہ میرے بیان سے عدلیہ کی توہین ہوئی ہے تو میں خاتون جج کی عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں، میرا کبھی یہ مقصد نہیں تھا کہ میں کسی جج کو دھمکی دوں۔  
عمران خان نے مختصر دورانیے کی اس گفتگو میں انگریزی میں بھی ججز کے سامنے استدعا کی۔
عمران خان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے معافی مانگنے کی پیشکش پر سابق وزیراعظم کے خلاف فرد جرم کی کارروائی موخر کر دی گئی۔  
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے لیے توہین عدالت کی کارروائی مناسب نہیں، اگر آپ کو احساس ہو گیا ہے تو ہم آپ کو سراہتے ہیں۔‘  

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو بیان حلفی جمع کروانے کا کہا۔ فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’آپ بیان حلفی جمع کروائیں ہم آج فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کو موخر کر دیتے ہیں، بیان حلفی دیکھ کر کیس کو آگے بڑھانے سے متعلق فیصلہ کر لیں گے۔‘  
اس پر عمران خان بولے، ’عدالت جیسے مطمئن ہوگی میں وہ کرنے کو تیار ہوں۔‘  
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘آپ بیان حلفی جمع کروائیں، اس کو دیکھ لیتے ہیں۔‘  
جس پر سابق وزیر اعظم شکریہ ادا کرتے ہوئے روسٹرم سے ہٹ گئے اور حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ ’بیان حلفی کل تک جمع کروا دوں؟‘ جس پر عدالت نے کہا کہ اگلی سماعت تک جمع کروا دیں اس کو دیکھ لیں گے۔  
عدالت نے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔  
’میں مافیا سے لڑ رہا ہوں پاکستان کی عدلیہ سے نہیں‘ 
عدالتی کارروائی ختم ہونے کے بعد عمران خان نے عدالت کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقی آزادی کی جنگ مافیا کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
’میں نے جس سے جنگ نہیں لڑنی وہ پاکستان کی عدلیہ ہے۔‘
سابق وزیراعظم سے جب پوچھا کہ عدالتوں سے آپ کی جان کب چھوٹے گی تو انہوں نے کہا ’فی الحال تو ایسا نہیں لگ رہا کہ جان چھوٹ جائے۔‘

شیئر: