Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تجربہ کاروں کی تجربہ کاریاں، ماریہ میمن کا کالم

عمران خان اجتجاج کی کال دیتے دیتے ہر ہفتے رہ جاتے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
شہباز حکومت کو تجربہ کار حکومت کے طور پر پیش کیا گیا اور شہباز شریف ایک سخت گیر منتظم کے طور پر سامنے آئے۔ توقع اور دعویٰ یہ تھا کہ ان کی تجربہ کار ٹیم ملک کو بحرانوں سے نکالے گی۔ ملک تو بحران سے ابھی نکلتا نظر نہیں آ رہا البتہ تجربہ کار ٹیم کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔
ملک بدستور دو عددی مہنگائی کی زد میں ہے۔ دنیا میں عمومی طور پر مہنگائی سے رہن سہن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے مگر چند ہی ملک ایسے ہیں جہاں صورتحال اتنی دگرگوں ہے، جیسی پاکستان میں۔
ملک کو نیا وزیر خزانہ البتہ ضرور مل رہا ہے اور وزیراعظم کے جہاز سے ملک چھوڑنے والے اسحاق ڈار، وزیراعظم ہی کے جہاز سے واپسی کے لیے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔
پچھلا کالم شہباز حکومت کے نہ آر اور نہ پار ہونے کے عنوان پر تھا، اور حسب توقع اسی صورتحال کا تسلسل نظر آ رہا ہے۔
عمران خان احتجاج کی کال دیتے دیتے ہر ہفتے رہ جاتے ہیں۔ بیانات بھی کبھی گرم اور کبھی سرد دے رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی بے اعتمادی بھی بدستور ہے۔
ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کے ساتھ وزیراعظم کو وزیر خزانہ لندن میں جا کر ڈھونڈنا پڑا۔ مفتاح اسماعیل جو مشکل فیصلوں کے دوران کھل کر قومی مفاد کو سیاسی مفاد پر ترجیح دینے کی باتیں کرتے تھے۔ جنہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے کئی ہفتے کوشش بھی کی اور انتظار بھی، اب اسحاق ڈار کے زیر قیادت ایک مختلف طرح کی اقتصادی پالیسی کو لاگو کریں گے۔ یہ وہی اسحاق ڈار ہیں جو کھل کر ان کی پالیسی پر تنقید کرتے تھے، اب وہ شہباز حکومت کی تجربہ کار حکومت کی آخری امید ہیں۔ تجربہ کاروں کا ایک اور تجربہ اب آزمائے جانے کے مرحلے میں ہے۔

ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کے ساتھ وزیراعظم کو وزیر خزانہ لندن میں جا کر ڈھونڈنا پڑا۔ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس حکومت کی یہ بے اعتمادی اور کنفیوژن کم از کم تجزیہ کاروں کے لیے غیر متوقع نہیں ہے۔ سامنے نظر آنے والی وجہ تو عمران خان کا سیاسی زور بھی ہے مگر اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں۔
گورننس اور معیشت کی بحالی سے پہلے ن لیگ بلکہ پی ڈی ایم کی سب سے پہلی ترجیح اپنے خلاف کیسز کو ختم کرنا تھا۔ نیب ترامیم سے لے کر عدالتوں میں ریلیف تک، سب سے پہلے تو ساری توجہ اسی طرف ہے۔ اسحاق ڈار کی بھی ترجیح یہی ہو گی۔ ان کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے کیسز میں بھی نقل و حرکت شروع ہو جائے گی۔ ایسی حکومت جس کی توجہ اس طرح منقسم ہو، چاہے جتنا بھی تجربہ کاری کا دعویٰ کرے اس کے لیے مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے۔
دوسری وجہ ن لیگ کی اندرونی اور خاندانی کشمکش ہے۔ حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی کا امیدوار بنانے پر کئی قسم کے تاثرات گردش کرتے رہے۔
ایک طرف یہ تاثر تھا کہ شریف خاندان کے فرد کے بغیر مقامی سیاستدان کسی اور متفق نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسری طرف اس کا واضح سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا جو خاندانی سیاست کے خلاف ایک دفعہ پھر بیانیہ بنانے میں کامیاب نظر آئی۔
اسحاق ڈار کی واپسی بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ منسلک اور ان کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ اسحاق ڈار اب شہباز شریف کے ماتحت وزیر ہوں گے۔ کیا اب نواز شریف کے قریب لوگوں کا اثر بڑھے گا اور کیا اس سے شہباز شریف کی پہلے سے کمزور گرفت مزید کمزور ہو جائے گی؟ اس کا اندازہ تو کچھ عرصے میں ہو جائے گا مگر یہ واضح ہے کہ تجربہ کار اور منجھی ہوئی ٹیم کی زیادہ توانائی ایک دوسرے پر اثر قائم کرنے میں ہی صرف ہو گی۔

گورننس اور معیشت کی بحالی سے پہلے ن لیگ بلکہ پی ڈی ایم کی سب سے پہلی ترجیح اپنے خلاف کیسز کو ختم کرنا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

تیسری وجہ پر پہلے بھی گفتگو ہو چکی مگر موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی مزید اہمیت ہے اور وہ ہے مخلوط حکومت کا تجربہ۔ حالیہ عرصے میں اتنی وزنی اور اتنی وسیع حکومت نہیں دیکھی گئی۔
تحریک انصاف اور ق لیگ کے علاوہ تمام پارٹیاں وفاقی حکومت کا حصہ ہیں اور تمام ہی پارٹیاں بڑی صفائی سے حکومت کی معاشی پالیسیوں سے لاتعلق ہیں۔ مگر جب بات آتی ہے پالیسیوں پر عمل درآمد کی، تو اس میں تمام وزارتوں کا کردار ہوتا ہے۔ یہاں پر وزیراعظم کی کور ٹیم کی بے بسی بھی عیاں ہے۔ ایک طرف کوئی صوبائی حکومت ان کو جواب دہ نہیں اور دو حکومتیں تو واضح مخالف ہیں۔
باقی دو بھی ان کو نمائشی پروٹوکول ہی دیتی ہیں۔ وفاقی وزارتیں بھی اسی طرح تقسیم ہیں۔ وزیر خارجہ اپنا پروفائل بنا رہے ہیں۔ دیگر وزیر مشمول ن لیگ کے اپنے وزرا کے بڑی سہولت سے نظر ہی نہیں آتے۔ ساری تجربہ کاری کو بوجھ شہباز شریف اور اب اسحاق ڈار پر ہو گا۔ اس تجربہ کاری کا نتیجہ بھی جلد ہی نظر آ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ تجربہ بھی بار آور نہ ہو سکا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ ن لیگ کو تو سیاسی نقصان نظر آ رہا ہے مگر اصل نقصان تو ملک اور اس کے عوام کا ہے۔ مہنگائی کے طوفان سے غریب طبقہ پہلے سے بھی زیادہ پس چکا ہے۔ وزیراعظم کے غیرملکی دورے اپنی جگہ مگر ملک کا وسیع حصہ ابھی بھی سیلاب کے اثرات سے متاثر ہے۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا کوئی فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ بجلی کے بعد اب گیس میں مہنگائی کا ایک نیا بم تیار ہے۔ کیا تجربہ کاروں کی تجربہ کاری صرف عہدوں میں تبدیلی تک ہے، عوام کو جواب کا انتظار ہے۔

شیئر: