Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایم ہاؤس میں کب کب ’جاسوسی‘ کی کوشش کی گئی؟  

ماضی قریب میں عمران خان کے فون کو اسرائیلی سافٹ ویئر سے ہیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں وزیراعظم ہاؤس کی 100 گھنٹے سے زائد کی آڈیو کی ڈارک ویب پر موجودگی اور اس کی مبینہ نیلامی کے بعد نمونے کے طور پر آنے والی تین لیک آڈیوز کے بعد اسے ملک کے سب سے بڑے دفتر پر سائبر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومتی سطح پر اگرچہ اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی سراغ سامنے نہیں لایا جا سکا۔ 
وزیر اعظم ہاؤس کب کب بَگ کیا گیا؟  
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے جاسوسی ہوئی ہے اور آڈیو ریکارڈ کی گئی ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ماضی میں کئی ایک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں تاہم جاسوسی کے واقعات کے بعد آڈیو یا ویڈیوز لیک نہیں کی گئیں۔  
ماضی قریب میں سابق وزیراعظم عمران خان کے موبائل فون کو اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے ہیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جولائی 2021 میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا پرانا نمبر بھی ہیک کرنےکی کوشش کی گئی تھی۔  
جس کے بعد حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ تحقیقات میں یہ دیکھا جائے گا موبائل ہیک ہوئے یا نہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر پیگاسس نے کہا تھا کہ پاناما لیکس سے بھی بڑا سکینڈل ہے۔ 
اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان گرمیوں میں وزیر اعظم آفس میں اپنے دفتر سے ملحقہ کمیٹی رومز اور سردیوں میں وزیراعظم ہاؤس کے لان میں ملاقاتیں اور اجلاس کرتے تھے۔ یہاں تک وزیر اعظم اور ڈی جی آئی ایس آئی اور غیر ملکی وفود سے بھی باہر بیٹھ کر ملاقاتیں کرتے تھے۔ 
اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں وزیراعظم ہاؤس یہاں تک رہائشی یونٹ کی ڈرون کے ذریعے نگرانی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں دو انٹیلی جنس اداروں کی باہمی مخاصمت کا نتیجہ تھا۔  

شاہراہ دستور پر واقع وزیراعظم آفس۔ فائل فوٹو: اے پی پی

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں وزیراعظم ہاؤس کی جاسوسی کی بہت سی کوششیں ہوئیں۔ اس حوالے سے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانے ریڈ زون میں واقع ہر اہم دفتر میں ہونے والے اجلاسوں کو بگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہم اسے روکنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔  
انٹیلی جنس بیورو حکام کے مطابق یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان کے گھر دفتر کے کونے کونے کو متعدد مرتبہ ڈی بگ کیا گیا تھا۔  
ان کے دور حکومت میں دو مرتبہ وفاقی کابینہ کا اجلاس کچھ گھنٹوں کے لیے ملتوی کیا گیا کیونکہ آئی بی نے کچھ ایسی شعاعوں کا پتہ لگایا تھا جو کابینہ روم سے آواز کیچ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بعد ازاں انھیں ڈی کوڈ کرکے متعلقہ ملک کو آگاہ کر دیا گیا تھا جس کے سفارت خانے سے یہ کوشش کی جا رہی تھی۔  
اگر اس سے قبل کی بات کی جائے تو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں ایسی کئی کوششیں ہوئیں لیکن بے نظیر نے انھیں سیاسی طریقے سے ہینڈل کرکے ناکام بنایا۔  
بے نظیر کی قریبی ساتھی ناہید خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سب کچھ تو 1947 سے ہو رہا ہے اور وزیراعظم تک کو نہیں چھوڑا جاتا۔ یقیناً بے نظیر کی گفتگو بھی ٹیپ کی جاتی تھی اور ان کو اس کا علم بھی تھا لیکن وہ یہ بات کسی دوسرے سے شیئر نہیں کرتی تھیں حتیٰ کہ اپنے قریبی لوگوں سے بھی نہیں۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’بے نظیر کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ ہر میٹنگ اپنے دفتر میں کرتی تھیں اور میٹنگ کے دوران انتہائی فارمل رہ کر بات کرتی تھیں۔ وہ کوئی بھی ایسی بات کرنے سے گریز کرتی تھیں جو بعد میں ان کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘  
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’بے نظیر نے کبھی کبھی وزیر اعظم ہاؤس یا آفس کے لان میں کوئی ملاقات یا اجلاس منعقد نہیں کیا تھا۔‘ 

وزیراعظم اور صدر کی سائبر سکیورٹی کا انتظام انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے پاس ہے۔ فوٹو: فری پکس

وزیراعظم ہاؤس کی سیکیورٹی کے ایس او پیز کیا ہیں؟  
پاکستان میں وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کی سیکیورٹی کی ذمہ داری انٹیلی جینس بیورو یعنی آئی بی کے پاس ہے۔ اس کی سیکیورٹی کے لیے جدید ایس او پیز لاگو کیے جاتے ہیں۔  
کم از کم دو وزرائے اعظم کی سکیورٹی ٹیم میں شامل رہنے والے آئی بی کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ وزیراعظم کی فزیکل سکیورٹی کے ساتھ ساتھ رہائش گاہ، دفتر، گاڑیوں کے علاوہ سائبر سکیورٹی کا اپنا نظام ہے اور ہر ایک کے لیے الگ الگ ٹیمیں موجود ہوتی ہیں جو ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کام کرتی ہیں۔  
ان کے مطابق ’ہر اہم ملاقات سے پہلا دفتر اور کمیٹی روم جبکہ ہر سفر سے پہلے گاڑی کی ڈی بگنگ کی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میٹل یا دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کا پتہ چلایا جا رہا ہے لیکن بعض ڈیوائسز ایسی بھی ہوتی ہیں جو کسی ریکارڈنگ ڈیوائس یا کیمرہ وغیرہ کی تلاش میں مدد دیتی ہیں۔ اس لیے ان کے ذریعے بھی مکمل جانچ کی جاتی ہے۔‘  
’اسی طرح وزیراعظم ہاؤس یا وزیراعظم آفس میں آنے والے ہر فرد سے موبائل فون باہر ہی جمع کر لیے جاتے ہیں اور عملے کے جن افراد کو سیکرٹریٹ میں موبائل فون لے کر جانے کی اجازت ہوتی ہے ان میں سے اگر کسی کو وزیراعظم کے دفتر میں کسی اجلاس کے لیے جانا ہو تو انھیں اپنا فون باہر چھوڑنا پڑتا ہے۔ جامہ تلاشی اور سکیورٹی دروازوں کا بھی تہہ در تہہ نظام موجود ہے۔‘  
اس سوال کے جواب میں کہ اس کے باوجود 100 گھنٹوں پر مشتمل آڈیو کیسے ریکارڈ ہو سکتی ہے؟ کے حوالے سے آئی بی حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن اگر اس دعویٰ میں صداقت ہے تو یہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کے پاس آئی بی کی سیکیورٹی ٹیم کو دھوکا دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ 
تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟  
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تمام محکموں کے حکام شامل ہوں گے۔ انٹیلی جنس بیورو حکام کے مطابق ابتدائی طور پر تحقیقات کا ٹاسک آئی بی ہی کو سونپا گیا ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کی سکیورٹی کو کیسے بریچ کیا گیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اس میں دیگر انٹیلی جنس محکموں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

شیئر: