Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود شرح خواندگی میں کمی کیوں؟

خیبرپختونخوا میں پہلی بار 2013 میں حکومت میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے تعلیمی ایمرجنسی، تعلیمی بجٹ میں 110 فیصد اضافہ، داخلہ مہم، اساتذہ کی تربیت اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے مگر ان سب کے باوجود محمکہ تعلیم کی اپنی رپورٹ کے مطابق صوبے میں شرح خواندگی میں کمی ہوئی ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن رکن عنایت اللہ خان کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محکمہ تعلیم نے کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ اسمبلی میں پیش کی ہے۔
اسمبلی میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 2018-19 میں صوبے میں شرح خواندگی 57 فیصد تھی جو کہ اگلے سال یعنی 20-2019 کے دوران کم ہو کر 55 فیصد ہوگئی۔ اس طرح  37 فیصد دس سال یا دس سے زیادہ عمر کی بچیوں کی جبکہ 72 فیصد شرح خواندگی لڑکوں کی ہے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا  ہے کہ 20-2019 کے دوران  آؤٹ آف سکول بچوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ خیبرپختونخوا اور ضم اضلاع میں سال 20-2019 کے دوران 30 فیصد بچے سکولوں سے باہر رہے۔
رپورٹ کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کی 40 فیصد بچیاں زیور تعلیم سے محروم رہیں۔
یہ رپورٹ پاکستان سوشل لیونگ میژرمنٹ نے تیار کی ہے۔ سال 2020 اور 2021 کی رپورٹ ابھی تک شائع نہیں کی گئی ہے۔

اپوزیشن رکن صوبائی اسمبلی کیا کہتے ہیں؟

اپوزیشن رکن اور جماعت اسلامی کے ایم پی اے عنایت اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ محکمہ تعلیم اور صوبائی حکومت کی ناکامی ہے۔ ’حکومت میں 10 سال گزارنے اور اربوں روپے تعلیم کے نام پر خرچ کرنے کے بعد کارکردگی سامنے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ بنتا ہے کہ اتنے پیسے گئے کہاں؟
عنایت اللہ خان نے کہا کہ سکولوں میں بنیادی سہولیات موجود نہیں، بچوں کو سکولوں میں داخل کیا جاتا ہے مگر مڈل لیول پر آکر بچے ڈراپ ہوجاتے ہیں۔

پشاورکے مقامی حبیب اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹی وی پر اشتہار دیکھ کر اپنا بیٹا سرکاری سکول میں داخل کروایا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ تعلیم کے فنڈز کا حساب ہونا چاہیے۔

محکمہ تعلیم کے اقدامات سے والدین کتنے مطمئن ہیں؟

پشاورکے مقامی حبیب اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ میں ٹی وی پر اشتہار دیکھ کر اپنا بیٹا سرکاری سکول میں داخل کروایا مگرایک سال بعد بچے کو سکول سے نکال دیا۔
سکول میں میرے بیٹے کو زمین پر بٹھایا جاتا تھا وہ روز آکر سکول نہ جانے کی ضد کرتا۔ ’سکول میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر کمرے کم تھے۔‘

محکمہ تعلیم کا موقف

اس معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم عبدالاکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ داخلہ مہم کا کامیاب بنانے کے لیے اس سال سیکنڈ شفٹ میں سکولوں کا آغاز کیا گیا ہے۔
’جن علاقوں میں سکول دور ہیں ان بچوں کے لیے کمیونٹی سکولز قائم بھی کیے گئے جن کی تعداد ایک ہزار تک ہے۔‘
عبدالاکرم نے بتایا کہ جہاں سکول موجود نہیں یا کلاسز میں گنجائش نہیں وہاں کرایے کے کمروں میں بھی کلاسز شروع کیے گئے ہیں۔

عبدالاکرم کے مطابق سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 24 ہزار نئی بھرتیاں کررہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

’تمام سکولوں میں بنیادی سہولیات کو یقینی بنارہے ہیں۔ رواں سال 26 لاکھ بچوں کو فرنیچرز فراہم کررہے ہیں جبکہ گزشتہ سال 13 لاکھ بچوں کو فرنیچرز فراہم کیے گئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ فرنیچرز کے لئے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
عبدالاکرم کے مطابق سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 24 ہزار نئی بھرتیاں کررہے ہیں۔
ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم  نے بتایا کہ جہاں ضرورت ہوگی  پیرنٹس ٹیچنگ کونسل کے ذریعے بھی کنٹریکٹ پر اساتذہ بھرتی کرسکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ صوبے میں نویں جماعت کے سالانہ نتائج بھی مایوس کن آئے ہیں۔
75 ہزار میں سے  38 ہزار 386 طلبہ امتحان پاس نہ کرسکے۔ گزٹ بک کے مطابق فیل ہونے والے  ذیادہ تر  بچے سرکاری سکولوں  کے ہیں جو زیادہ تر بائیولوجی، فزکس، اور کیمسٹری میں فیل ہوئے ہیں۔

شیئر: