مریم نواز کی بریت: شریف خاندان کی اندرونی سیاست کتنی متاثر ہوگی؟
مریم نواز کی بریت: شریف خاندان کی اندرونی سیاست کتنی متاثر ہوگی؟
جمعرات 29 ستمبر 2022 17:43
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
سیاسی پنڈتوں کے مطابق نواز شریف نے مریم نواز کی تربیت اپنی سیاسی وارث کے طور پر کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا ہے، جس کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر کے الیکشن لڑنے اور پارلیمانی سیاست کرنے پر بھی عائد پابندی ختم ہو گئی ہے۔
تقریباً سوا چار سال بعد مریم نواز کی نااہلی کے خاتمے سے ناصرف مسلم لیگ نواز کو مجموعی سیاسی فائدہ ہوا ہے بلکہ شریف خاندان کی اندرونی سیاست میں بھی نواز شریف کی سیاسی وارث مضبوط ہو گئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مریم نواز کی بریت کے بعد ان کے والد سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں اور خاندان میں مریم کی پہلے سے مضبوط پوزیشن اب مزید مستحکم ہو گئی ہے۔
عدالت سے بری ہونے کے بعد مریم نواز اب قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتی ہیں اور جیت کر وزارت اعلٰی اور وزارت عظمٰی کی دوڑ میں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
سیاسی مخالفین ایک عرصے سے مسلم لیگ ن میں سے ش نکلنے کی ناکام پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں، تاہم اب تک خاندان نے اختلاف رائے کو بھی کبھی سیاسی اختلافات میں بدلنے نہیں دیا، بلکہ مریم نواز اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی بریت کے فیصلے کے فورا بعد اپنے چچا سے ملنے سیدھی وزیراعظم ہاوس پہنچیں اور دونوں نے جذباتی انداز میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور مٹھائی بھی کھلائی۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کسی حد تک مختلف نظریے کے باوجود نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان مثالی تعلقات نظر آتے ہیں اور چند دن قبل بھی شہباز شریف لندن میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سیاسی حکمت عملی ترتیب دے کر واپس آئے ہیں، اور ساتھ ہی ان کے تجویز کردہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کو بھی اپنے طیارے میں واپس لائے ہیں۔
تاہم اس سب کے باوجود کچھ سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ دونوں خاندانوں میں سیاسی وراثت کی ایک مخاصمت چل رہی ہے اور شہباز شریف نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو سیاسی وارث کے طور پر تیار کیا ہے جبکہ نواز شریف نے مریم نواز کی تربیت اپنی سیاسی وارث کے طور پر کی ہے۔
’میدان اسی کا جو میدان میں اترتا ہے‘
لاہور سے اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے شریف خاندان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 40 سالوں سے اس خاندان کو جانتے ہیں، جس کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف میں ایشوز پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے، مگر اختلافات نہیں ہو سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ن (نواز شریف) اور ش (شہباز شریف) کی بات نہیں کیونکہ جو فیصلہ ن کا ہوتا ہے وہ سب ہی مانتے ہیں۔‘
سلمان غنی نے کہا کہ جمعرات کے عدالتی فیصلے کے بعد بھی مریم نواز اپنے چچا کے پاس ہی گئی ہیں۔ ’اس خاندان کے اندر مشرقی روایات بہت مستحکم ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو والد کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔‘
پارٹی میں مریم نواز کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد مریم نواز باہر نہ نکلتیں تو پارٹی سٹینڈ نہ کر پاتی۔ وہی پارٹی کی آواز بنی اور مردانہ وار تحریک چلائی۔‘
سلمان غنی کے مطابق بریت کے بعد مریم نواز کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھ جائے گا کیونکہ وہ پارلیمانی سیاست میں بھی ایکٹو ہو جائیں گی۔
حمزہ شہباز اور مریم کا موازنہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میدان اس کا ہوتا ہے جو میدان میں کردار ادا کرتا ہے۔‘
’عمران خان کی شکل میں خاندان کو ایک بڑا چیلنج درپیش‘
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ابھی مریم نواز کے پارلیمنٹ جانے کے کچھ مراحل ہیں کیونکہ ان کی ہائی کورٹ سے بریت کے بعد نیب سپریم کورٹ بھی جا سکتا ہے تاہم وہ ابھی طے ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز پارٹی کے قائد نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں جبکہ حمزہ شہباز موجودہ وزیراعظم کے سیاسی وارث ہیں۔ ابھی دونوں میں مخاصمت نہیں ہے کیونکہ دونوں کو مشترکہ چیلنج درپیش ہے جو عمران خان کی مقبولیت کا ہے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’جب آئندہ انتخابات ہو جائیں اور مسلم لیگ نواز اس پوزیشن میں ہو کہ حکومت بنا سکے تو پھر سیاسی مخاصمت دیکھی جا سکتی ہے۔‘
’مریم نواز کی بریت سے یہ ضرور ہوا ہے کہ اب نواز شریف کو اگر عدالتوں سے ریلیف نہیں بھی ملتا تو ان کے لیے یہ باعث اطمینان ہو گا کہ مریم نواز کی شکل میں ان کی جانشین موجود ہے۔‘
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’آج کے فیصلے کے بعد میرے خیال میں مریم نواز کھل کر سیاست کرتی نظر آئیں گی اور اگر عام انتخابات کے بعد نواز شریف کی سیاست آگے نہیں بڑھ پاتی تو مریم نواز کو مسلم لیگ ن کی ٓصدارت بھی مل سکتی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ سب کچھ قبل ازوقت ہے کیونکہ ’عمران خان کی شکل میں خاندان کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔‘