Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران کے ساتھ نسلی امتیاز کی سیاست

عمر ان خان پٹھا ن ہیں یا نہیں ہیں اس کی سیا ست سے کیا نسبت کہ سیاسی بیان بازی میں طعنہ زنی کی جا ئے
- - - - - - - -
سید شکیل احمد
- - - - -  -
مسلما نو ں کے زوال کا اصل سبب فکر وشعو ر ، علم وفہم سے دوری ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیا ست دنیا کی عجیب طر ز کی حامل ہے بلکہ صحیح کہنا یہ ہوگا کہ بہت ہی بد بو دار ہے جہا ں سیا سی جما عتیں عوام کو اپنے منشور سے آگاہی وفکر سے ہم آہنگ کر نے کی بجا ئے شخصیا ت کو لچر باتو ں کے ذریعے مسخ کر کے سیاسی دکا ن چمکا نے کی سعی کر تے ہیں۔ یہ بات کیا ہو ئی کہ عمر ان خان پٹھان ہیں یا نہیں ہیں یا اصلی پٹھان ہیں یا جعلی پٹھان ہیں۔ اے این پی کے اکا برین جن کے بارے میں یہ گما ن ہے کہ وہ ایک اصولی سیاست کے امین ہیں چاہے ان کے اصولو ں سے کوئی بھی اتفاق کر ے یا نہ کر ے مگر اکثر اوقات وہ بھی سیا ست کی اعلیٰ روایا ت کی پٹری سے اتر جا تے ہیں۔ قیا م پا کستان کے بعد سے ان اکابرینِ پنجا ب کا جبھی ذکر ہوتا تو ان کا اندازِ تکلم پر تشنیع کا گما ن ہو تا ۔ابھی حال ہی میں عمر ان خان کی سیا سی مخالفت کے دوران اے این پی کے لیڈرو ں نے ان کو پنچابی ہونے کا طعنہ دیا اور ایسا کئی مرتبہ کر چکے ہیں ۔ اب خیر سے قومی رہنما جن کی جماعت کو پاکستان کی زنجیر کہا جا تا ہے آصف زرداری بھی لہکے اور انھو ں نے عمر ان خان کو جعلی پٹھان یا جعلی پختو ن قرا ر دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصہ کے بعد تحریک انصاف میدانِ سیا ست میں تیسری بڑی سیا سی قوت بن کر ابھری ہے اور اس نے بڑے سیا سی جمو د کو تو ڑا ہے۔
1970ء کے انتخابات تک اے این پی جو اُس وقت این اے پی کے نا م سے مصروف سیاست تھی قومی جما عت کا کر دار ادا کر رہی تھی مگر بھٹو کے زوال کے بعد سے یہ جما عت علا قائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا قومی سیا ست میں کر دار ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ بہر حا ل جو ایسی دشنا م طر ازی کر رہے ہیں وہ قوم کو بتائیں کہ پا کستان میں نسلی امتیا ز کا سیا ست سے کیا تعلق۔ عمر ان خان پٹھا ن ہیںیا نہیں اُس کی سیا ست سے کیا نسبت کہ سیاسی بیان بازی میں طعنہ زنی کی جا ئے، کیا وہ پا کستانی نہیں،پھر جہا ں تک نسل کا تعلق ہے تو پٹھان واقعی ایک قوم وقبیلہ کی تعر یف کے زمر ے میں ہے مگر پنجا بی کسی قوم کے زمر ے میں نہیں کیونکہ انگریز نے صوبو ںکی تقسیم نسلی بنیا د پر نہیں کی تھی بلکہ انتظامی بنیا د پر کی تھی چنا نچہ پنجا ب کسی قوم کا لیبل نہیں ، یہ ایک انتظامی لیبل ہے جیسا کہ صوبہ پنجا ب میں آرائیں ، سید ، گکھڑ ، راجپو ت ،کھرل ، بلو چ قبائل لغاری ، جتوئی ، مزاری وغیر ہ وغیر ہ آباد ہیں اسی طرح صوبہ پختونخوا میں بھی مختلف نسلیں آبا د ہیں مگر اسی کی دہا ئی میں اے این پی کے قائد خان عبدالولی خان نے اپنی سیا سی ضرورت کے تحت لفظ ’’پختو ں‘‘ استعمال کیا ۔ اس سے پہلے یہ استعمال میں نہیں تھا۔
افغانستان کے لو گ خود کو یا تو افغانیہ کہتے تھے یا پشتو ن کہتے تھے، اسی نسبت سے اس قوم میں بولی جا نے والی زبان کو پشتو کہا جاتا ہے چنا نچہ ولی خان نے جو نیا فلسفہ دیا اس میں ان کا فرما نا تھا کہ صوبہ سرحد (اس وقت پختونخوا کا نا م یہی لیا جا تا تھا ) میں ہر بسنے والا پختو ن ہے چاہے وہ کسی رنگ و نسل ، قوم وقبیلے سے تعلق رکھتا ہے گویا پختو ن ہو نے کیلئے زمینی احاطہ کیا گیا ، نسلی امتیا ز کو در کنا ر کیا گیا ۔ جہا ں تک نسل کا تعلق ہے تو اس میں شک نہیں کہ’’ نیا زی‘‘ پٹھا ن نسل ہے اور قابل احترام قبیلہ ہے۔ میا ں والی یا یو ں جا نئے کہ دریا سندھ کے اس کنا رے پر جو صوبہ پختونخوا میں خٹک قبیلہ آباد ہے تو پشتونو ں کا دوسرا قبیلہ نیا زی دریا سندھ کے پنجا ب والے کنا رے پرآبا د ہے۔ کنا رو ںکی یہ تقسیم نسلی بنیا د پر نہیں، انتظامی ہے ۔ ضلع میا ں والی پہلے صوبہ پختو نخوا کا باقاعدہ ضلع تھا جس کو بعد ازاں پنجا ب کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔
چاہئے تو یہ کہ اے این پی اور محمو د خان اچکزئی جو عظیم پختو ن خطے کے داعی ہیں وہ پنجا ب میں شامل پختو ن قوم کے علا قو ں کو صوبہ پختو نخوا میں شامل کر نے کا مطالبہ کر یں، ان کو کیوں زبردستی پنجا بی بنا یا گیا ہے۔ یہ بھی تو پختونو ں کے ساتھ ناانصافی ہے کہ ایک قوم کو دریا سندھ کے کنا رو ںکی آڑ میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ بہر حال پا کستان میں دشنا م طر ازی ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا نا م ہی سیا ست رکھ دیا گیا ہے۔ اس میںخود عمر ان خان کے اے پلس نمبر ہیں۔ گزشتہ ساڑھے 4 سال سے وہ صرف شریف برادران کے درپے نظر آرہے ہیں۔قومی اسمبلی میں ایک طا قت ور آواز ہو نے کے باوجود ان کی کا رکردگی صفر ہی رہی ہے ۔جہا ں تک صوبہ پختو نخواہ کا تعلق ہے کہ اس کو تبدیل کر دیا گیا ہے، ایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا ، اس سلسلے میں وہ پو لیس کی بات کر تے نہیں تھکتے حالا نکہ ایسی کوئی تبدیلی پو لیس میں بھی نظر نہیں آئی کہ جس پر یقینا انقلا ب ہو جائے۔ صرف سیاسی سفارشوں پر تبادلے اورتقرریا ں ختم کر نے سے انقلاب نہیں آیا کرتا ۔ وہ معاشرتی برائیا ں جو اس محکمہ میں پہلے سے تھیں وہ آج بھی نظر آرہی ہیں ، کسی کو بھی فرد ملکیت ہزارو ں روپے بطور نچھا ور کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ شہر کے امصار وقریہ ویسی گندگی کے ڈھیر ہیں جیسا کہ اپنی پسند کے ٹھیکیدارو ںکو صفائی کا ٹھیکادینے سے پہلے تھے ۔
عمر ان خان نے عوام کے دل کرپشن ولو ٹ ما ر کو ختم کر نے کے خواب دکھاکر جیتے تھے۔ انکی سیا ست کسی طورپر پر انے سیاست دانو ں سے ہٹ کر نظر نہیں آئی ۔ خان صاحب نے مینا ر پاکستان میں پاکستان کے تاریخی جلسوں میں سے ایک جلسہ کیا تھا جس کے بارے میں یہ الزام دیا جا تا ہے کہ اس کی کا میا بی میں اسٹیبلشمنٹ کا ہا تھ تھا ۔ اس میں انھو ں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کرپشن ختم کر یں گے اور قوم سے کوئی بات پو شید ہ نہیں رکھیں گے، سب عوام کو بتا ئیں گے چاہے کتنے ہی تالو ں کے اندر بات ہو ، مگر انھو ں نے آج تک قوم سے کئے گئے اس وعدہ کو سچا نہیں کیا۔ دھر نا میں امپا ئر کا ذکر کر تے رہے مگر آج تک قوم بے خبرہے کہ پشت پر کو ن امپائرنگ کر رہا تھا۔ اسی طرح دھر نے کے دوران انھو ں نے کہا کہ ان کو جلدی اسلئے ہے کہ وہ دوسری شادی کرنے والے ہیں۔جب یہ با ت کہی تو نکا ح رجسٹر کے مطالق ان کا نکا ح ہو چکا تھا جس کو قوم سے چھپا یا۔ انہوں نے35 پنکچر لگانے کا الزام لگا یا مگر عدالتی کمیشن میں کوئی ثبو ت پیش نہیں کیا بلکہ کہا کہ ان کا کا م الزام لگا نا ہے ثبوت تلا ش کر نا کمیشن کا کا م ہے ۔یہ عجب منطق ہے۔ پا نا مہ کیس میں بھی وہ ثبو ت فراہم کر نے میں ناکا م رہے اور وہا ں بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ انھو ں نے الزام لگا نا تھا سو لگا دیا اب عدالت جن پر الزام لگا ہے ثبو ت ما نگے ۔یہ کیسی سیاست ہے۔اب ایک نیا سنگین الزام لگایا ہے کہ پانامہ کیس سے دستبرادری کے عوض ان کو10 ارب روپے کی پیشکش ہوئی تھی۔جن پر الزام لگایا گیا وہ بھی، آصف زرداری بھی اور قوم بھی ثبوت ما نگ رہی ہے کہ چہر ے بے نقاب ہو ں اور یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے قبیح چہر و ں کو بے نقاب کیا جا ئے مگر کہتے ہیں کہ آفر دینے والا شہباز شریف اور حمزہ کا قریبی ہے تو خان صاحب کو معلو م ہو نا چاہیے کہ وہ عمر ان خان کے قریب تو نہیں،ان کر پٹ لو گو ں کے قریب ہے اور جر م میں معاونت کر نے والا بھی اتنا بڑا مجر م ہو تا ہے جتنا بڑا مجر م جر م کر نے والا ہو تا ہے۔ وہ پھر ایک مجر م کو کیو ںبچا رہے ہیں یہ کیسی شفافیت ہے۔جہا ں تک وہ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلہ کے مطابق نو از شریف صادق وامین نہیں رہے ، خود اُن پر بھی تو صادق وامین نہ ہو نے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ قوم سے سچ بولنے کا وعدہ کر کے اب تک انھو ں نے جتنے بھی الزاما ت لگائے یا دعوے کئے، اس میں انھو ں نے وعدہ خلا فی کی تازہ ترین وعدہ خلا فی 10 ارب کے خریدار کا نا م پو شیدہ رکھ کر خلا ف ورزی کے مر تکب ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن میں ان پر پا رٹی کے ایک سابق عہد ید ار ایس اکبر احمد کی جانب سے پارٹی فنڈ کا غلط استعمال اور خوردبرد کے الزام میں نااہلی کی تلو ار لٹک رہی ہے جہاں وہ پیش ہو نے کی بجا ئے فرار کی راہ اختیا ر کئے ہوئے ہیںکیونکہ ان کے وکلاء تاریخ پر تاریخ لے کر وقت کا خون کر رہے ہیں ۔ چاہیئے کہ صادق وامین ہو کر قوم کے سامنے سرخرو ہو ں اور مقدمہ کا سامنا کر یں تاکہ قوم کو یقین ہو کہ وہ وعدے کے پکے نہیں بلکہ صادق وامین ہیں۔ ایسے سیا سی حالا ت کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پا کستان میں کچھ بدلا جا ئے یا نہ بدلا جائے مگر سیا ست کے رنگ ڈھنگ بدلنا ہو ں گے۔

شیئر: