Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پرائیویٹ جہاز کیسے خریدا جا سکتا ہے؟

بزنس جیٹ میں اخراجات زیادہ ہوتے ہیں جن میں سے ایک پائلٹ کی سیمولیٹر پر سالانہ تربیت ہے (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان میں ذاتی طیارہ رکھنا اب ایلیٹ طبقے کا نیا فیشن بن گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ پاکستان کی کئی نجی کمپنیوں نے اپنے جہاز رکھے ہوئے ہیں بلکہ کئی شخصیات جن میں بڑے کاروباری افراد سے لے کر ٹی وی اینکرز تک شامل ہیں، نے اپنے طیارے رکھے ہوئے ہیں جن پر وہ ملک کے اندر اور باہر سفر کرتے ہیں۔ 
پاکستان ایئر کرافٹ اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن کے بانی عمران اسلم خان جہازوں کی ایک پرائیویٹ کمپنی سکائی ونگز کے مالک ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں کئی لوگوں نے اپنے ذاتی طیارے رکھے ہوئے ہیں جو ملک کے بڑے ایئر پورٹس کراچی، اسلام آباد اور لاہور پر موجود رہتے ہیں۔
ان کا کہنا کہ اگر کسی کے پاس مطلوبہ رقم موجود ہو تو اب پاکستان میں پرائیویٹ جہاز رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ 
عمران اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگر تین حصوں پر مشتمل عمل کو پورا کیا جائے تو پاکستان میں کوئی بھی شخص نہ صرف پرائیویٹ جہاز کا مالک بن سکتا ہے بلکہ اس کو اندرون ملک اور بیرون ملک آپریٹ بھی کر سکتا ہے۔‘ 
’پہلے مرحلے میں جہاز کا انتخاب، دوسرے میں جہاز کو بیرون ملک سے پاکستان منتقل کرنا اور تیسرے اور آخری حصے میں جہاز کو پاکستان لانے کے بعد اسے آپریٹ کرنا ہے۔‘ 

پاکستان میں کس طرح کے پرائیویٹ جہاز موجود ہیں؟

عمران اسلم نے بتایا کہ پاکستان میں تین اقسام کے جہازوں کا زیادہ استعمال مناسب سمجھا جاتا ہے جن میں پسٹن انجن ایئر کرافٹ،  ٹربو پروپ ایئر کرافٹ اور جیٹ ایئر کرافٹ یا بزنس جیٹ شامل ہیں۔ 
’پسٹن انجن ایئر کرافٹ سب سے سستا ہوتا ہے۔ اس کی قیمت ایک لاکھ ڈالر سے ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر تک ہوتی ہے۔ ٹربو پروپ کے جہاز کی مالیت آٹھ لاکھ ڈالر سے لے کر پانچ سے ساڑھے پانچ ملین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ جبکہ بزنس جیٹ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کی قیمت 1.5 ملین ڈالر سے 50 سے 60 ملین ڈالر تک مالیت ہوتی ہے۔‘ 
عمران اسلم کے مطابق جہاز کے انتخاب کے بعد جہاز کی خریداری کا عمل ہے۔ اس کے بھی کئی طریقے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بہتر ہے کہ جہاز کی خریداری پر پانچ سے 10 فیصد رقم کی ادائیگی کی جائے۔ باقی رقم کی ادائیگی سکیورٹی کمپنی کے ذریعے کی جائے، کمپنی جہاز فروخت کرنے والے کو پوری ادائیگی جہاز کے خریدار کے نام منتقل ہونےکے بعد کرتی ہے۔ یہ ایک محفوظ خریداری ہوتی ہے۔‘
’جہاز کی خریداری کے عمل کو مکمل کرنے کے بعد اسے پاکستان امپورٹ کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ اگرسول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کیا جائے تو 15 سے 20 روز میں جہاز پاکستان لایا جاسکتا ہے۔‘ 
ترجمان سول ایوی ایشن سیف اللہ کے مطابق اگر کوئی اپنا جہاز بین الاقوامی مارکیٹ سے خریداری کے بعد پاکستان منتقل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اتھارٹی کی ویب سائٹ پر ایک فارم موجود ہے جسے بھر کر دیگر ضروری دستاویزات کے ساتھ جمع کروایا جائے تو جہاز درآمد کرنے کا این او سی مل جاتا ہے۔ 
ان کے مطابق اگر جہاز کی ملکیت نہ ہو تو لیز پر خرید کر بھی پاکستان لایا جا سکتا ہے۔  

پرائیویٹ جہاز پاکستان لانے کے لیے کس کس کی اجازت ضروری ہے؟ 

عمران اسلم بتاتے ہیں کہ لیز پر لیا گیا جہاز پاکستان لانا آسان ہے کیوں کہ اس کا اجازت نامہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے دینا ہوتا ہے جبکہ خریدے گیے جہاز کو پاکستان لانے کے لیے وزارت ہوا بازی اور وزارت داخلہ سے کلیئرینس لینا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر ادارے بھی اس کے لیے اپنی کلیئرینس دیتے ہیں۔  
’یہ ایک قدرے مشکل عمل ہے اور اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔‘ 
عمران اسلم کے مطابق جہاز کی پاکستان میں آسان منتقلی کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ جہاز کو لیز پر لے کر پاکستان لایا جائے اور بعد میں اونر شپ کی درخواست دائر کی جائے۔   

پاکستان میں ذاتی جہاز اڑانے پر کتنا خرچہ آتا ہے؟ 

عمران اسلم بتاتے ہیں کہ پرائیویٹ جہاز کو امپورٹ کرنے کے لیے جہاز کی قیمت کے علاوہ 50 فیصد اضافی رقم بجٹ میں رکھنا ضروری ہے۔ اس اضافی رقم میں جہاز کی رجسٹریشن اس کی کسٹم ڈیوٹی اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔ 
اس کے علاوہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پرائیویٹ جہازوں کو آپریٹ کرنے کے لیے قوانین کے مطابق پائلٹ کی تعیناتی اور مقررہ مدت کے بعد جہاز کی دیکھ بھال کے مناسب انتظامات ضروری ہیں۔ 
پاکستان میں مختلف سٹیشنز پر ایئرکرافٹ مینٹینینس اورگنائزیشن (آئی ایم او) اور مینٹیننس ریپیر آرگنائزیشنز (ایم آر او) کی سہولت موجود ہیں۔ ان میں سے اگر کسی سے معاہدہ کرلیا جائے تو جہاز کی مرمت  اور دیکھ بھال آسان ہو جاتی ہے۔ 
عمران اسلم خان کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے اگر کسی کمپنی سے معاہدہ کر لیا جائے تو اس میں اخراجات کم ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اپنا انجینئرنگ اسٹاف رکھنا مہنگا پڑتا ہے۔ 
’دیکھ بھال کے انتظام کے بعد پائلٹ رکھنے کا عمل ہوتا ہے۔  پاکستان میں پرائیویٹ پائلٹ 8 لاکھ سے 10 لاکھ روپے میں باآسانی رکھا جا سکتا ہے۔ جہاز کی پہلی کیٹیگری، یعنی پریسٹن انجن جہاز کو رکھنے کے لیے ماہانہ تین سے پانچ لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں۔  ٹربو پروپ کیٹیگری کے جہاز رکھنے میں 15 سے 25 لاکھ روپے کا مہینے کا خرچہ ہے جن میں جہاز کی مینٹیننس اور پارکنگ سمیت دیگر اخراجات شامل ہیں۔‘ 
عمران اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ بزنس جیٹ میں اخراجات زیادہ ہوتے ہیں جن میں سے ایک پائلٹ کی سیمولیٹر پر سالانہ تربیت ہے۔  
پہلے یہ ٹریننگ سال میں دو بار ہوتی تھی لیکن اب یہ سال میں ایک بار کر دی گئی ہے۔ اس کا خرچہ 25 ہزار سے 40 ہزار ڈالر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بزنس جیٹ کی مینٹیننس پاکستان میں عام طور پر میسر نہیں ہے۔ اس کے لیے جہاز کو بیرون ملک بھیجنا پڑتا ہے اور ایسا سال میں کم از کم دو دفعہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
’اس حساب سے جہاز کی مینٹیننس کی مد میں تقریباً 70 ہزار ڈالر کا خرچہ ہوتا ہے۔ اگر استعمال شدہ جہاز ہے تو یہ خرچ 70 ہزار سے دو لاکھ ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔  بزنس کیٹیگری کے جہاز کی پاکستان میں دیکھ بھال کے لیے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے ماہانہ لگ سکتے ہیں۔‘ 

ہیلی کاپٹر رکھنا مشکل، جہاز رکھنا آسان 

ایوی ایشن کے ماہر عمران اسلم کے مطابق ہیلی کاپٹرز کی خریداری اور درآمد کرنے کا عمل بھی تقریباً یہی ہے۔ 
 ’ہیلی کاپٹر کی دو اقسام ہیں۔ پہلی سنگل انجن کیٹیگری اور دوسری ملٹی انجن کیٹیگری۔ سنگل انجن کیٹیگری کی لاگت کم ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی آسان ہے۔ تاہم ملٹی انجن کیٹیگری کے ہیلی کاپٹر کی دیکھ بھال کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ یہ سہولت پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ اس کے لیے یا تو ہیلی کاپٹر کو باہر لے جانا پڑتا ہے یا پھر تربیت یافتہ افراد کو پاکستان بلانا پڑتا ہے۔‘

ہیلی کاپٹر کے اخراجات دیگر پرائیویٹ جہازوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں(فائل فوٹو: پاک ویلز)

ان کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر کے اخراجات دیگر پرائیویٹ جہازوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔  ٹربو پروپ کیٹیگری کا خرچہ آٹھ سو سے ہزار ڈالر ایک گھنٹے تک لگتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں ہیلی کاپٹرکی یہی پرواز کم رفتار کے ساتھ 15 سو سے اڑھائی ہزار ڈالر فی گھنٹہ پڑتی ہے۔ 
 عمران اسلم خان کا کہنا ہے کہ ’ایوی ایشن کی انڈسٹری کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایوی ایشن کی انڈسٹری میں بہت گنجائش ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

شیئر: