Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی سطح پر تیل کی طلب میں مزید اضافہ متوقع ہے، سعودی آرامکو

پیداواری صلاحیت کو 13ملین بیرل یومیہ کرنے کے منصوبے پر گامزن ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
دنیا میں توانائی کی منتقلی کے لیے ابھی کوئی منصوبہ مکمل طور پر سامنے نہیں آیا جس کے باعث عالمی سطح پر تیل کی طلب میں 2030 اور اس کے بعد تک اضافہ متوقع ہے۔
عرب نیوز کے مطابق لندن میں 4 اکتوبر کو انرجی انٹیلی جنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے سعودی آرامکو کے سی ای او امین ناصرنے کہا ہے کہ تیل اور گیس کے متبادل ابھی تیار نہیں ہوئے۔
امین ناصر نے واضح کیا ہے کہ کاربن کی گرفت اور ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کو ڈی کاربنائز کرنے کے لیے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
سعودی آرامکو کے چیف ایگزیکٹو افسر نےاس موقع پر تقریر کے دوران مزید کہا ہے کہ  تیل کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر اضافی پیداواری صلاحیت کو یقینی بنانا صرف سعودی عرب کی ذمہ داری نہیں۔
امین ناصر نے مزید وضاحت کی کہ انٹرنیشنل آئل مارکیٹ طویل المدتی اقتصادیات کے بجائے مختصر مدت پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جب کہ تیل کی پیداوار بڑھانے کی عالمی گنجائش اس لحاظ سے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ اس بات پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کہ اگر دنیا کے مختلف حصوں میں کساد بازاری ہوتی ہے تو مارکیٹ ڈیمانڈ کے ساتھ سپلائی کے بنیادی اصولوں پر توجہ ہونی ضروری ہے۔

تیل اور گیس کے متبادل ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوئے۔ فوٹو عرب نیوز

سعودی آرامکو جو تیل کی عالمی منڈی میں بڑی پیداواری صلاحیت رکھتی ہے یورپ میں تیل کی بڑھتی ہوئی  مانگ کے باوجود  ایشیائی مارکیٹ کو برقرار رکھنے کا اپنا منصوبہ بنا رہی ہے۔
سعودی آرامکو 2027 تک اپنی پیداواری صلاحیت کو 12 ملین بیرل یومیہ سے بڑھا کر 13ملین بیرل یومیہ کرنے کے منصوبے پر گامزن ہے اور اس منصوبے پر اربوں ڈالر کی لاگت متوقع ہے۔
امین ناصر نے مزید کہا کہ یورپ کو اس وقت جس بنیادی مسئلے کا سامنا ہے وہ گیس اور مائع گیس سے متعلق ہے جس کی وجہ اضافی گنجائش کی کمی ہے۔
اس وقت ہمیں تیل، گیس اور ایل این جی میں کچھ اضافی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر کسی بھی طرح کی بندش یا بڑھتی ہوئی مانگ مارکیٹوں میں مزید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔

بڑھتی ہوئی مانگ مارکیٹوں میں مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

سعودی آرامکو اس وقت بلیو ہائیڈروجن سمیت گیس کی برآمدات کے آغاز کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس وقت مشرقی ایشیا، جاپان اور جنوبی کوریا کے صارفین کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ستمبر میں سوئٹزرلینڈ میں ایک فورم میں شرکت کرتے ہوئے امین ناصر نے کہا تھا کہ توانائی کے شعبے میں عدم تحفظ کی وجہ سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے باعث توانائی کے بلوں کو محدود کرنا اور تیل کمپنیوں پر ٹیکس لگانا توانائی کے عالمی بحران کا طویل مدتی حل نہیں۔
 

شیئر: