Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جعفرآباد میں راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی، ایک شخص ہلاک

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود سیلاب کے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے جا رہے۔
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں سیلاب متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران بد نظمی کے نتیجے میں دو بچوں کا باپ ہلاک ہوگیا۔
ورثا نے ہلاکت کا ذمہ دار پولیس کو قرار دیتے ہوئے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کی اور مطالبہ کیا کہ ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
جعفرآباد بلوچستان میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے جہاں دوماہ گزرنے کے باوجود بھی بیشتر علاقوں میں سیلاب کا تین سے چار فٹ پانی کھڑا ہے۔ ہزاروں لوگ دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی سڑکوں پر خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
حکام کے مطابق سیلاب سے ضلع کی تین لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہے  جبکہ دو ماہ میں 30 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
جعفرآباد پولیس کے ڈی ایس پی خاوند بخش نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ جمعرات کو جعفرآباد کے علاقے کیٹل فارم میں ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کی جانب سے سیلاب متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران اس وقت بد نظمی پیدا ہوگئی جب مطلوبہ تعداد سے زائد لوگ جمع ہوگئے۔
ڈی ایس پی کے مطابق سات سوافراد کو ٹوکن جاری کیے گئے تھے مگر وہاں دو ہزار سے زائد لوگ پہنچ گئے تھے جنہیں ٹوکن نہیں ملا تھا ان میں سے بعض لوگوں نے لوٹ مار کی کوشش کی۔
ڈی ایس پی کے بقول ’اس سے پہلے بھی لوٹ مار کے کئی واقعات ہوچکے تھے اس لیے پولیس اہلکار بھی تعینات کئے گئے تھے۔ لوٹ مار کو روکنے کے لیے پولیس اہلکاروں نے ہوائی فائر کیا جو دیوار پر بیٹھے ایک نوجوان کو لگی جس سے وہ زخمی ہوا ۔ ہسپتال پہنچانے کے بعد وہ دم توڑ گیا۔‘
مرنے والے 22 سالہ نوجوان کی شناخت نوریز مستوئی کے نام سے ہوئی ہے جو گوٹھ نظام مستوئی کا رہائشی تھا۔
مقتول کے رشتہ دار لیاقت مستوئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس کا مؤقف جھوٹا ہے۔
نوریزئی مستوئی کو راشن کا ٹوکن ملا ہوا تھا اور وہ دیوار پر نہیں بلکہ چار دیواری کے اندر زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے سیلاب متاثرین پر لاٹھی چارج کیا اور پھر گولیاں چلائیں اس میں سے ایک گولی نوریز کی ریڑھ کی ہڈی میں لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ 22 سالہ نوریز کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا اس کے دو چھوٹے بچے تھے اوروہ کھیتی باڑی کرکے گزارا کرتے تھے۔

مقتول کے رشتہ دار لیاقت مستوئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس کا مؤقف جھوٹا ہے۔

تاہم حالیہ سیلاب نے ان کی فصلیں اور گھر تباہ کردیا تھا اور ان کے گھر میں فاقے پڑرہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'نوریزئی اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے راشن لینے گیا تھا لیکن پولیس اہلکاروں نے آٹے کی بجائے گولی دی۔‘
واقعہ کے خلاف ہلاک ہونے والے شخص کے لواحقین نے کیٹل فارم تھانے کے باہر دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا ہے کہ ماتحت اہلکار افسر کے حکم کے بغیر فائر نہیں کرسکتے اس لیے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ایس ایچ او کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود سیلاب کے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے جا رہے۔
’بڑے اور با اثر زمینداروں نے نئی فصل اگانے کے لیے پانی کی گزرگاہیں بند کردی ہیں۔ پانی جمع ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور سڑکوں پر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں جہاں کھانے کو کبھی کچھ مل جاتا ہے تو کبھی بچے بھوکے ہی سوجاتے ہیں۔‘
احتجاج میں شریک ایک سیلاب متاثرہ شخص عبداللہ مستوئی کا کہنا تھا کہ لوگ آٹے اور چاول کی ایک بوری کے لیے ترس رہے ہیں اور اس کے حصول کے لیے وہ پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے کے لیے تیار ہوتے ہیں مگر آج تو ڈنڈوں کے بجائے گولیاں ماری گئیں۔
ڈی ایس پی خاوند بخش کھوسہ کا کہنا ہے کہ فائرنگ میں ملوث اہلکاروں سے تفتیش شروع کردی گئی ہے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔

شیئر: