Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جے یو آئی بلوچستان حکومت میں شامل نہیں ہوگی، ’مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے‘

جے یو آئی کے مطابق ’وزیراعلٰی قدوس بزنجو نے ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے برعکس جواب دیا‘ (فائل فوٹو: ڈی جی پی آر)
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) نے بلوچستان حکومت میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ 
جے یو آئی بلوچستان کے امیر اور وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس مولانا عبدالواسع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اب ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) میں بھی حکومت میں شمولیت کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ مولانا عبدالواسع نے بزنجو حکومت سے قربتیں بڑھانے پر اپنی اتحادی اپوزیشن جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ 
جے یو آئی کے رہنماؤں نے گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کے بعد بلوچستان حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی تھی، جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ چار سالوں سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی جے یو آئی جلد صوبائی حکومت کا حصہ بنے گی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، صوبائی امیر مولانا عبدالواسع اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ساتھ حکومت میں شمولیت کے فارمولے پر بات چیت بھی ہوئی تاہم معاملات آگے نہیں بڑھ سکے۔پیر کو کوئٹہ میں پارٹی اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا عبدالواسع نے حکومت میں شامل نہ ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث بلوچستان میں بڑی تباہی ہوئی۔ ہم حکومت سے باہر رہ کر کچھ نہیں کر سکتے اس لیے انتخابات میں چند ماہ رہنے کے باوجود جے یو آئی نے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے بار بار اصرار پر حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔
جے یو آئی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ ’حکومت میں شمولیت پر رضا مندی کے بعد جے یو آئی نے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی تھی۔ وزیراعلیٰ انتظار کرنے کا کہتے رہے کہ باقی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کررہے ہیں، پھر انہوں نے ہمارے چارٹر آف ڈیمانڈ پر اس کے برعکس جواب دیا۔‘
مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعلیٰ کی حکومت میں شمولیت کی دعوت کو شکریہ کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔ جے یو آئی اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گی۔

جے یو آئی کے رہنماؤں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کے بعد حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی تھی (فائل فوٹو: ڈی جی پی آر)

ان کی پریس کانفرنس کے کچھ دیر بعد ہی عبدالقدوس بزنجو کے مخالف سمجھے جانے والے سابق وزیراعلیٰ جام کمال اپنے حامی ارکان اسمبلی کے ہمراہ مولانا عبدالواسع اور جے یو آئی کی صوبائی قیادت سے ملنے پہنچ گئے۔
جام کمال سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں ہم نے حکومت کو تبدیل کرایا تھا اور یہ حکومت بھی ہمارے ہاتھوں سے بنی ہوئی تھی۔ سیلاب کے بعد امدادی سرگرمیوں میں صوبائی حکومت نے بہت غفلت کا مظاہرہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم حکومت میں شامل ہو کر بیڈ گورننس اور خرابیوں کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں سے اچھا پیغام نہیں آیا اور ہمارے لیے ایک بے عزتی والا ماحول بنایا اس لیے ہم نے یہ فیصلہ لیا۔‘
مولانا عبدالواسع نے اپنی اتحادی اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو سے قربتیں بڑھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بی این پی کے دوست تو وزیراعلیٰ ہاؤس تک پہنچ گئے ہیں اور راتیں بھی وہیں گزارتے ہیں۔ ہم تو اس (حکومت کے خلاف) سفر پر نکل گئے ہیں، بی این پی سے پوچھا جائے کہ وہ اس میں ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں۔‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی گزشتہ چار سالوں سے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اتحادی جماعتیں ہیں اور دونوں جماعتوں نے گزشتہ انتخابات میں بعض نشستوں پر انتخابی اتحاد بھی قائم کیا تھا۔ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کی مخلوط وفاقی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔

جام کمال نے اپنے حامی ارکان اسمبلی کے ہمراہ مولانا عبدالواسع اور جے یو آئی کی صوبائی قیادت سے رابطہ کرلیا (فائل فوٹو: جام کمال ٹوئٹر)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی گزشتہ چار سالوں سے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اتحادی جماعتیں ہیں اور دونوں جماعتوں نے گزشتہ انتخابات میں بعض نشستوں پر انتخابی اتحاد بھی قائم کیا تھا۔ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کی مخلوط وفاقی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔
گزشتہ مہینے جے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے اسلام آباد میں ملاقات کر کے بلوچستان حکومت میں مشترکہ طور پر شامل ہونے یا نہ ہونے پر اتفاق کیا تھا۔
بلوچستان میں جاری اس سیاسی کشمکش کے حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’جے یو آئی نے صوبائی حکومت میں شمولیت کے لیے پانچ وزارتیں، دو مشیر اور بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کے عہدے مانگے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پی ٹی آئی کو صوبائی حکومت سے نکالنے کی شرط پر بھی رکھی تھی۔‘
ان کے بقول ’جمعیت کے مطالبات زیادہ اور شرائط سخت تھیں جن پر عمل کرنا پانچ چھ جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے لیے مشکل تھا۔‘
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کی کوشش تھی کہ بی این پی کے ساتھ مل کر زیادہ مضوط حیثیت سے حکومت میں شامل ہو جائے۔ بی این پی کے صوبائی ارکان اسمبلی کی خواہش کے باوجود سردار اختر مینگل بلوچستان حکومت میں شمولیت پر راضی نہیں تھے لیکن مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد انہوں نے پارٹی کے مرکزی کمیٹی میں فیصلہ کرنے کے لیے وقت مانگا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’عبدالقدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بی این پی اور جے یو آئی نے فرینڈلی اپوزیشن کی حیثیت اختیار کرلی تھی‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

انہوں نے کہا کہ بزنجو حکومت سے قربتیں بڑھانے پر مولانا عبدالواسع کا بیان سخت ہے اور اس کے یقیناً جے یو آئی اور بی این پی کے اتحاد پر اثرات پڑیں گے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ بی این پی اس پر کس طرح کا ردعمل دیتی ہے۔
بی این پی کے رہنما اور صوبائی اسمبلی کے رکن اختر حسین لانگو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی نے ابھی تک بلوچستان حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا اس سلسلے میں ابھی تک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔
انہوں نے مولانا عبدالواسع کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی رہنما کے متنازع بیان پر بی این پی مشاورت کے بعد ردعمل دے گی۔
اختر حسین لانگو کا کہنا تھا کہ بی این پی اور جے یو آئی ابھی تک اتحادی جماعتیں ہیں، ہم اپوزیشن میں اکٹھے رہے ہیں اب آگے مزید ساتھ چلیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ پارٹی کے قائدین کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جام کمال کو ہٹائے جانے اور عبدالقدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام نے بجٹ میں ترقیاتی منصوبے اور دیگر مراعات ملنے پر فرینڈلی اپوزیشن کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔
تاہم حکومت میں شمولیت کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد جے یو آئی کا رویہ تبدیل ہوسکتا ہے اور وہ جام کمال گروپ کے ساتھ مل کر بزنجو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

شیئر: