Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی قاتلانہ حملے میں ہلاک

سابق جج کے قتل کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ایک دھڑے نے قبول کی ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے-
 جبکہ مستونگ میں ایک دھماکے کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوگئے ہیں۔
ڈی آئی جی رخشان ڈویژن نذیر احمد کرد کے مطابق 66 سالہ نور محمد مسکانزئی کو آبائی ضلع خاران میں جمعہ کی رات کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے مسجد کی کھڑکی سے سابق چیف جسٹس پر دس فائر کیے جن میں سے چار گولیاں انہیں لگیں اور وہ زخمی ہوگئے اور بعد ازاں دم توڑ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
سابق جج کے قتل کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ایک دھڑے نے قبول کی ہے۔
تنظیم کے ترجمان آزاد بلوچ نے کہا کہ نور محمد مسکانزئی بی ایل اے کا ہائی پروفائل ہدف تھا-
ایس ایچ او خاران پولیس محمد قاسم نے اردو نیوز کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس بلوچستان خاران کے علاقے پرانا گزی روڈ پر گھر کے قریب واقع مسجد میں نماز عشا پڑھنے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ نامعلوم حملہ آوروں نے مسجد کے اندر ہی نور محمد مسکانزئی پر فائرنگ کی جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے جبکہ حملے میں ان کے داماد حاجی ممتاز کو بھی گولی لگی-
ایس ایچ او کے مطابق نور محمد مسکانزئی کو ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے- انہیں پیٹ میں چار گولیاں لگی تھیں۔
پولیس افسر نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس کو سکیورٹی کے لیے چار پولیس اہلکار دیے گئے تھے- حملے کے وقت بھی ایک اہلکار ان کی حفاظت پر موجود تھا- مسجد کے دو چھوٹے اور ایک بڑا دروازہ ہے- پولیس اہلکار مسجد کے دوسرے حصے میں موجود تھا-
انہوں نے بتایا کہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم ان کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں-
سابق چیف جسٹس کے اہلخانہ نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کی  کسی سے دشمنی نہیں- ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ حملے میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیم کے ملوث ہونے کا خدشہ ہے-
نور محمد مسکانزئی  پر فروری 2015 میں بھی اس وقت بم حملہ کیا گیا جب وہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھے-
ان کے قافلے کو خاران سے واپسی پر نوشکی میں نشانہ بنایا گیا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے-

کمیشن کے فیصلے پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

نور محمد مسکانزئی دسمبر 2014 سے اگست 2018 تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ وہ مئی 2019 میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔
نور محمد مسکانزئی بلوچستان کے ضلع خضدار میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبر کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن کے سربراہ بھی رہے۔
خضدار کے علاقے توتک سے جنوری 2014 میں اجتماعی قبر سے سترہ لاشیں ملی تھیں۔ عدالتی کمیشن نے اس کیس میں سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا تھا۔
کمیشن کے فیصلے پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔
مسکانزئی نے 1980 میں یونیورسٹی لاء کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی کیا اور 1981 میں باقاعدہ وکالت شروع کی۔ وہ مختلف اداروں کے قانونی مشیر اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان بھی رہے۔
نور محمد مسکانزئی ستمبر 2007 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہونے سے پہلے بلوچستان بار کونسل کے  وائس چئیرمین تھے۔
قائمقام گورنر بلوچستان جان محمد جمالی، وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے نور محمد مسکانزئی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کے مشیر برائے داخلہ ضیاء لانگو نے متعلقہ حکام سے حملے کی رپورٹ طلب کی ہے اور ہدایت کی ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کےلئے خصوصی ٹیم بنائی جائے۔
 بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور تمام ججز نے بھی حملے کی مذمت کی ہے ۔ انہوں نے نور محمد مسکانزئی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے صوبے میں عوام کو انصاف کی فراہمی اور عدالتوں کی وسعت کےلئے کام کیا۔
بلوچستان کی وکلاء تنظیموں نے سابق چیف جسٹس کے قتل پر سوگ اور عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

مستونگ میں دھماکہ، تین افراد ہلاک

ادھر کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں ایک بم دھماکے میں تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوگئے۔ اسسٹنٹ کمشنر دشت فریدہ ترین نے اردو نیوز کو بتایا کہ دھماکا دشت کے دور دراز  پہاڑی علاقے قابو میں اس وقت ہوا جب لوگ ایک نوجوان کو دفنانے جارہے تھے۔
مقامی بنگلزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو ایک روز قبل نامعلوم افراد نے اغوا کے بعد قتل کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی جگہ سے کچھ دیر پہلے فورسز کی گاڑیاں بھی گزری تھیں اس لیے حملے کا ہدف کے بارے میں ابھی تک یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔

شیئر: