Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان 27 ارب ڈالر قرض ری شیڈول کروانے کی کوشش کرے گا: وزیر خزانہ

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’میں مستحکم کرنسی کے حق میں ہوں، لیکن اسے یرغمال نہیں ہونا چاہیے۔‘ (فوٹو: بلوم برگ)
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ پیرس کلب کے علاوہ دیگر ملکوں کے 27 ارب ڈالر قرض کی ری شیڈولنگ کی کوشش کریں گے جس کا زیادہ تر حصہ چین کو واجب الاادا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر خزانہ نے پاکستان کے ڈیفالٹ کے خطرے کو رد کیا۔
انہوں نے کہا کہ کثیر الجہتی ڈیویلپمنٹ بینکس اور انٹرنیشنل ڈونرز پاکستان کی بیرونی مالی ضروریات کے حوالے سے ’بہت لچکدار‘ ہیں جو سیلاب کے بعد 32 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔   
ان کے مطابق شاید یہ پہلے سے منظور شدہ فنڈز کی تخصیص اور ترقیاتی قرض کی دیر سے ادائیگی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
جب وزیر خزانہ سے پوچھا گیا کہ کیا چین کو اس حوالے سے راضی کرنا مشکل ہوگا تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ چین پاکستان کو 23 ارب ڈالر قرض دینے والا ملک ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان پرنسپل قرضے کو کم کرنے کی کوشش کرے گا تو اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ری شیڈولنگ ٹھیک ہے، لیکن ہم قرضہ کم نہیں کروائیں گے۔ یہ مناسب نہیں ہے۔‘
اسحاق ڈار تین مرتبہ پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور ماضی قریب میں وہ 2013 سے 2017 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہیں پاکستانی روپے کے محافظ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت دو سو روپے سے نیچے ہونا چاہیے۔
’میں مستحکم کرنسی کے حق میں ہوں۔ میں ایک حقیقت پر مبنی ریٹ پر یقین رکھتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ کرنسی مارکیٹ کے حساب سے ہو، لیکن اسے یرغمال نہیں ہونا چاہیے۔‘

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر دو سو روپے سے نیچے ہونا چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

وزیر خزانہ سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے آئی ایم ایف سے اس کے نئے ’رزیلینس اینڈ سسٹین ایبیلٹی ٹرسٹ‘ سے قرض حاصل کرنے پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے تمام آپشنز پر بات کی۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نئی ’خوراک کی کمی‘ کے حوالے سے قرض کی آپشن بھی بہتر ہوگی۔ تباہ کن سیلاب کی وجہ پاکستان کی فصلیں برباد ہو چکی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اگلے سال پانچ لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑے۔
’اس صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس قرض کی اس سہولت کے لیے رابطہ کرنے اور اسے حاصل کرنے کی ضرورت پڑے۔‘

شیئر: