Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھالیہ، سپاری نے ترکی میں پاکستانی سیاح کو جیل پہنچا دیا

محمد اویس کے والد نے وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں۔
پاکستان میں رہتے ہوئے آپ کسی بھی دکان پر جائیں اور تین روپے نکال کر دکاندار کو دیں اور اسے کہیں کہ سپاری دے دیں تو وہ آپ کو سپاری ایسے ہی تھما دے گا جیسے کسی بچے کو ٹافی تھما دیتا ہے۔ 
سپاری خریدتے وقت کبھی آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا ہوگا کہ آپ نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔ لیکن اگر یہی سپاری آپ جہاز میں بیٹھ کر ترکی لے جائیں تو یہ آپ کو منشیات کے کیس میں جیل بھجوا سکتی ہے۔ 
ایسا ہی کچھ ہوا ہے لاہور کے رہائشی محمد اویس کے ساتھ جن کی کمپنی نے انھیں اچھی کارکردگی دکھانے پر ترکی کی سیر کے لیے بھیجا۔ انھوں نے خوشی خوشی ویزہ لگوایا اور قطر ایئر ویز پر بیٹھ براستہ دوحہ استنبول پہنچے لیکن اپنے ٹور آپریٹر دوست کی فرمائش پر لے جانے والی سپاری کی وجہ سے جیل پہنچ گئے اور ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود تاحال جیل میں ہی موجود ہیں۔ 
معاملہ کچھ یوں ہے کہ محمد اویس 15 ستمبر کو لاہور سے ترکی روانہ ہوئے۔ جانے سے پہلے انھوں نے پاکستان میں عام استعمال ہونے والی سپاری کے دو پیکٹ اس ٹور آپریٹر کے لیے بطور تحفہ خرید لیے جس نے اسے ترکی میں خدمات فراہم کرنا تھیں۔ لاہور ایئرپورٹ پر بھی کسٹمز حکام سمیت کسی نے محمد اویس کا نہیں بتایا کہ ترکی میں چھالیہ لے جانا غیرقانونی اور منشیات کے زمرے میں آتا ہے۔ 
اس حوالے سے اردو نیوز کو تفصیلات بتاتے ہوئے اویس کے بھائی محمد شعیب نے بتایا کہ ترکی ایئرپورٹ پر پولیس حکام نے اسے بنا کسی تحقیقات کے دو پیکٹ سپاری کی وجہ سے جیل بھیج دیا۔ میرے بھائی نے انھیں یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں یہ ایک ماوتھ فریشنر ہے اور مجھے نہیں معلوم نہیں تھا کہ ترکی میں اس پر پابندی ہے۔
اس کے باوجود پولیس نے اسے پکڑ لیا اور اگلے دن عدالت میں پیش کرکے جیل بھیج دیا۔ 
انھوں نے کہا کہ دو پیکٹ سپاری کی قیمت تین چار سو روپے بنتی ہے۔ میرا بھائی خود دل کا مریض ہے، اس کی بیوی ہے، بیٹی ہے وہ اتنی چھوٹی سی رقم کے لیے اپنے خاندان کو داؤ پر تو نہیں لگائے گا۔ یہ سب کچھ انجانے میں ہوا ہے۔ اس میں ہمارے سفارت خانے کا قصور ہے کہ جس نے ترکی سفر کرنے والوں کو کبھی اس بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا کہ چھالیہ یا سپاری ترکی میں منشیات کا درجہ رکھتی ہے۔ 

ترکی میں چھالیہ لے جانا غیرقانونی اور منشیات کے زمرے میں آتا ہے۔ 

انھوں نے بتایا کہ جب ہم نے اپنے بھائی کا کیس لڑنے کے لیے ترکی میں رابطے شروع کیے تو پتہ چلا کہ وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کوئی پندرہ سولہ لوگ بظاہر بے ضرر چیز کے لیے جیل میں کاٹ رہے ہیں۔ سفارت خانے سے رابطہ کیا تو انھوں نے دس روز بعد ایک لیٹر جاری کیا جس میں ترک حکام کو آگاہ کیا گیا تھا کہ چھالیہ پاکستان میں ثقافتی طور پر استعمال ہوتا ہے اور قوانین کے مطابق اس کی درآمد اور برآمد کی اجازت بھی ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ہم اب تک اس کیس کے لیے دو وکیل کیے ہیں جن کو 14، 15 لاکھ روپے ادا کر چکے ہیں۔ ہم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم وہاں اتنے پیسے خرچ کرسکیں وہ بھی ایک ایسے مقدمے میں جس میں ہمارے بھائی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ جب ہم نے ترک حکومت کو بتایا ہے کہ یہ منشیات نہیں ہے بلکہ ایک عام استعمال کی چیز ہے تو ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ چھالیہ کو لیبارٹری میں بھیجا جائے گا۔ جس کی رپورٹ آنے میں چھ ماہ لگ جائیں گے تب اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ 
اس حوالے سے محمد اویس کے والد  سیف اللہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس میں سارا قصور قونصل خانے میں موجود پاکستانی حکام کا ہے کہ انھوں نے عوام الناس کو آگاہی نہیں دی۔
ہم وزیراعظم شہباز شریف کے محلے دار ہیں اس معاملے کو ان کے نوٹس میں لانے کے لیے متعدد بار ان کی رہائش گا ماڈل ٹاون لاہور پر گئے لیکن وہاں کوئی ہماری شنوائی نہیں ہونے دیتا۔
انھوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں اور ترک حکام سے رابطہ کرکے نہ صرف ہمارے بے گناہ بچے بلکہ دیگر پاکستانیوں کی رہائی کا بھی انتظام کریں۔ 

قونصلیٹ حکام نے 26 ستمبر کو اس سلسلے میں پبلک نوٹس بھی جاری کیا ہے اور پاکستان میں متعلقہ حکام کو آگاہی کے خطوط بھی لکھ دیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں بچے کماتے ہیں تو گھر کا نظام چلتا ہے اب اگر بیٹا چھ ماہ تک بے گناہ ترکی کی جیل میں قید رہے گا تو ہمارا گھر کیسے چلے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے بیوی بچے بغیر کسی جرم کے اس سے دور رہیں گے۔ 
والد سیف اللہ نے کہا کہ بیٹا دل کا مریض ہے اس کا دم گھٹتا ہے اس صورت حال میں جب وہ ایک ناکردہ گناہ اور لاعلمی کی وجہ سے جیل میں ہے ہم پریشان تو ہیں ہی لیکن اس کی زندگی کے لیے زیادہ فکر مند ہیں۔ ہم جس پریشانی سے گزر رہے ہیں دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ کسی دشمن کو بھی اس سے دوچار نہ کرے۔ 
اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2021 میں بھی ایک پاکستانی شیخ احمد بھی چھالیہ رکھنے کے جرم میں پکڑے گئے تھے۔ ان کی گرفتاری کے کئی ماہ بعد پاکستانی سفارت خانے نے ترک حکام کو خط لکھا کہ چھالیہ پاکستان میں ممنوع نہیں ہے بلکہ عام استعمال کی چیز ہے تو انھیں 17 فروری 2022 کو رہائی ملی تھی۔ 
اس معاملے پر استنبول میں پاکستانی قونصلیٹ کے حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ترکی میں ایسے پاکستانی جن کے پاس سپاری یا چھالیہ تھا ان کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں بلکہ ان میں سے کچھ کو بھاری سزائیں سنائی گئی ہیں۔ 
حکام کا کہنا ہے کہ معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر ترک حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قونصلیٹ کے سوشل میڈیا پیجز اور دیگر ذرائع پاکستان سے آنے والوں بالخصوص سیاحوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ سپاری یا چھالیہ ترکی میں قانوناً منشیات کے زمرے میں آتا ہے۔ 
قونصلیٹ حکام نے 26 ستمبر کو اس سلسلے میں پبلک نوٹس بھی جاری کیا ہے اور پاکستان میں متعلقہ حکام کو آگاہی کے خطوط بھی لکھ دیے ہیں۔

شیئر: