Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس حراست میں نوجوان کی ہلاکت، والد کو 32 برس بعد انصاف مل گیا

وکیل کے مطابق ’محمد شکیل کو پولیس نے 24 جون 1990 کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے نوجوان کے والد کو تین دہائیوں بعد انصاف مل گیا۔
عدالت نے سندھ حکومت کو 1990 میں پولیس کی حراست میں تشدد سے ہلاک ہونے والے نوجوان کے ورثا کو دو کروڑ سے زائد روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
سنہ 1991 میں دائر کی گئی درخواست پر عدالت نے فریقین کو سننے کے بعد مقتول کے ورثا کا موقف درست تسلیم کرتے ہوئے ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا۔
سٹیٹ بینک نے سندھ حکومت کے اکاؤنٹس سے رقم کاٹ کر چیک ناظر سندھ ہائی کورٹ کے پاس جمع کرادی۔
یاد رہے کہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری میں پولیس اہلکاروں کو قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ عدالت نے سٹیٹ بینک کو سندھ حکومت کے اکاؤنٹس سے 2 کروڑ 8 لاکھ روپے سے زائد کی رقم کاٹنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے مقتول کے اہل خانہ کو 2 کروڑ 8 لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ سندھ ہائی کورٹ فرخ عثمان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کراچی اولڈ سٹی ایریا کے رہائشی 24 سالہ محمد شکیل کو پولیس نے 24 جون 1990 کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔‘
’پولیس نے حراست کے بعد شکیل کو سی آئی اے سینٹر صدر میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں ان کی پولیس حراست میں ہی موت ہوگئی تھی۔‘
فرخ عثمان کے مطابق ’پولیس کی جانب سے مقتول شکیل کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی تھی۔ پولیس نے شکیل پر ناجائز اسلحہ رکھنے کا مقدمہ بھی بنایا تھا۔‘

وکیل کے مطابق ’شکیل کو سی آئی اے سینٹر صدر میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’واقعے کے بعد مقتول محمد شکیل کے والد محمد سرور نے سندھ حکومت کو فریق بناتے ہوئے 1991 میں 50 لاکھ روپے ہرجانے کی درخواست دائر کی تھی۔‘
’درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کا بیٹا گھر کا واحد کفیل تھا جسے پولیس نے گھر سے حراست میں لیا اور ان پر بدترین تشدد کیا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔‘
فرخ عثمان کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت اس قتل کی ذمہ دار ہے اور مقتول کے ورثا کو ہرجانے کی صورت میں 50 لاکھ روپے ادا کیے جائیں۔‘
’سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس فیصل کمال عالم نے کیس سننے کے بعد 23 جون 2017 کو مقتول محمد شکیل کے والد محمد سرور کے حق میں فیصلہ دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ 50 لاکھ روپے ہرجانے کی رقم کے ساتھ درخواست دائر کیے گئے سال سے اب تک 15 فیصد سالانہ انٹرسٹ بھی ادا کیا جائے۔‘
اس فیصلے کے بعد سندھ حکومت نے اپیل دائر کی جس کے بعد جسٹس عقیل احمد عباسی اور جسٹس عبدالمبین لاکھو پر مشتمل دو رکنی بینج نے اس کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے نوجوان کے ورثا کو دو کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فاضل عدالت نے کیس میں فریقین کو تفصیلی طور پر سننے کے بعد رواں سال اپریل میں سندھ حکومت کی دائر کی گئی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے احکامات دیے کہ درخواست گزار کو ہرجانے کی رقم ادا کی جائے۔  
یاد رہے کہ مقتول محمد شکیل کے والد کی جانب سے دائر کی گئی ہرجانے کی درخواست میں سندھ حکومت کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کا بیٹا محمد شکیل جنرل سٹور چلاتا تھا اور گھر کا واحد کفیل اور بے قصور تھا۔
مقتول کے والد نے ایس ایس پی سی آئی اے سینٹر سمیع اللہ مروت و دیگر پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کے بیٹے کو چھت سے الٹا لٹکا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔
درخواست گزار نے بیٹے کی پوسٹ مارٹم سمیت دیگر میڈیکل رپورٹس عدالت کے سامنے رکھتے ہوئے 1991 میں حکومت سندھ کے خلاف 50 لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔

شیئر: