Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغان خواتین کی حالت زار پر توجہ کے لیے‘ ویمن سائیکلنگ چیمپیئن شپ

افغان مہاجر خواتین سائکلنگ کے مقابلے میں شریک ہوں گی۔ فوٹو: روئٹرز
سوئٹزرلینڈ میں افغانستان ویمن سائیکلنگ چیمپیئن شپ میں دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر افغان خواتین حصہ لیں گی جن میں سے ایک معصومہ علی زادہ ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ پانچ سال سے فرانس میں رہنے والی معصومہ علی زادہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے ملک کی نمائندگی کرنا نہیں چھوڑی۔
معصومہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ اتوار کو منعقد ہونے والی ریس سے افغانستان میں خواتین کی خطرناک صورتحال پر دنیا کی توجہ مبذول کرانے میں مدد ملے گی۔
کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، سنگاپور اور سوئٹزرلیند سے 49 افغان مہاجر خواتین 57 کلومیٹر طویل سائیکل ریس میں شرکت کریں گی۔ 
معصومہ کا کہنا ہے کہ دنیا نے افغانستان کی خواتین کو تن تنہا چھوڑ دیا ہے، جو بھی انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔
گزشتہ سال معصومہ نے ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کر کے لاکھوں افغان خواتین کے لیے امید کا باعث بنی تھیں جنہیں اپنے خواب ترک کرنا پڑے۔
ٹوکیو اولمپکس میں مہاجر اولمپک ٹیم کے تحت شریک ہونے والی معصومہ پہلی افغان خاتون سائیکلسٹ تھیں۔
لیکن معصومہ کا کہنا ہے کہ ٹوکیو میں جو انہوں نے خوشگوار تجربہ حاصل کیا اسے طالبان نے اقتدار  میں آ کر تباہ کر دیا۔ 
معصومہ کا تعلق افغان ہزارہ کمیونٹی سے ہے جنہیں ہر دور میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔
 پچھلی صدی کے آخری چند عشروں میں جب افغانستان کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو دیگر لاکھوں افغانوں کی طرح معصومہ کو بھی ہمسایہ ممالک کو ہجرت کرنا پڑی۔ معصومہ اور ان کے خاندان نے ایران کا رخ کیا اور افغانستان میں حالات سازگار ہونے تک چند سال وہیں گزارے۔

معصومہ ٹوکیو اولمپکس میں شامل ہونے والی پہلی افغان خاتون سائیکلسٹ تھیں۔ فوٹو: گیٹی

ایران میں ہی معصومہ نے سائیکل چلانا سیکھی اور کابل واپس آنے پر افغان قومی ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت معصومہ کی عمر 16 برس تھی۔
لیکن سائیکل چلانے اور سپورٹس والا لباس پہننے پر نہ صرف معصومہ کو توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ ان پر پتھراؤ بھی کیا جاتا۔ جیسے جیسے ان پر دباؤ بڑھتا گیا تو انہوں نے 2016 میں فرانس میں پناہ لے لی۔
لیکن اس کے بعد سے افغانستان میں خواتین کے لیے صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے۔
معصومہ کا کہنا تھا کہ ہر روز خواتین اپنا ایک نیا حق کھوتی ہیں بلکہ اکثر کو جیل میں بھی ڈالا گیا یا پھر انہیں زبردستی ملک چھوڑنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بچیوں کا سب سے بڑا خواب سکول جانا ہے تو سپورٹس تو خواتین کے لیے بالکل ختم ہو چکی ہے۔

شیئر: