Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان احتلاف رائے سیاسی نہیں خالصتا معاشی: شہزادی ریما

آج کا سعودی عرب وہ نہیں جو اب سے 5 یا 10 سال قبل تھا (فائل فوٹو عرب نیوز)
واشنگٹن میں متعین سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اختلاف رائے سیاسی نہیں خالصتا معاشی تھا‘۔ 
سی این این کے بیکی اینڈرسن کو انٹرویو میں شہزادی ریما بنت بندر نے کہا کہ ’امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پر نظر ثانی مثبت بات ہے‘۔ 
 ’یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ ہم اختلاف کی حد تک پہنچ گئے ہیں بہت سے لوگوں نے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ اختلاف سیاسی نہیں بلکہ خالصتا معاشی ہے‘۔ 
انہوں نے کہا کہ’ رحجانات کی نشاندہی کے حوالے سے چالیس یا پچاس سالہ تجربے نے سکھایا ہے کہ ہمیں کسی شخص کی سیاست کا حصہ  نہیں بننا ہے۔ ہم جیسا کہ  ہمارا تاریخی عمل بتاتا ہے کہ توانائی مارکیٹ کے ذریعے معاشی استحکام  اور توازن پیدا کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔‘ 
امریکہ سے سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے شہزادی ریما بنت بندر نے کہا کہ ’دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ کے ساتھ تعلقات سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ امریکہ پھر امریکہ ہے۔ 80 برس تک ہمارا اتحادی اور دوست رہا ہے۔  میں بہت سارے لوگوں کو سن رہی ہوں وہ مملکت کے ساتھ تعلقات میں اصلاحات یا نظر ثانی کی باتیں کررہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ مثبت بات ہے۔ سعودی عرب اب وہ ریاست نہیں جو اب سے پانچ سال قبل تھی۔ سعودی عرب کا حال اب وہ  نہیں جو 10 سال پہلے تھا‘۔  
اس سوال پر کہ کیا سعودی عرب روس کے حوالے سے جانبدار ہے؟ شہزادی ریما نے کہا کہ ’مملکت کی پالیسی تمام شعبوں میں تمام فریقوں کے ساتھ معاملات  کی پالیسی ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ بھی سعودی عرب تعلق رکھتا ہے جن سے متفق ہوتا ہے اور ان کے ساتھ بھی جن سے متفق نہیں ہوتا۔ روس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت  نے سعودی عرب کو جنگی قیدیوں کو رہا کرانے کا موقع دیا‘۔ 
سعودی سفیر نے مزید کہا کہ ’ہم ثالث اور مذاکرات کار کے طور پر اپنے کردار کو دیکھتے ہیں۔ ہم نے انسانی بنیادوں پر یوکرین کی مدد کی۔ 400 ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد دی۔ یوکرین اور پولینڈ کے ساتھ تعاون کیا اور دس ملین ڈالر دیے تاکہ یوکرین سے نکلنے والے پناہ گزین محفوظ طریقے سے پولینڈ پہنچ سکیں‘۔ 
شہزادی ریما بنت بندر نے کہا کہ ’یہی سب ہے جو ہم کررہے ہیں۔ یہی بحران کے حل میں ہماری حصہ  داری ہے۔ کیا اسے روس کی جانبداری کہا جائے گا؟ ہرگز نہیں‘۔ 

شیئر: