Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کیا اب بھی جاری ہیں؟

پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کا آغاز 28 اکتوبر سے کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت لاہور سے اسلام آباد کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اپنے بیانات میں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیان بازی بھی کر رہے ہیں مگر دوسری طرف یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ ان کی بات چیت چل رہی ہے۔
چند دن قبل اپنے کنٹینر پر خطاب میں عمران خان نے تصدیق کی کہ ’وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کر رہے ہیں اور مذاکرات کے لیے ان کے نمائندے صدر عارف علوی ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ شہباز شریف سے کیوں بات کریں، ’میں ان سے بات کر رہا ہوں اور کی ہے جن کو ملنے کے لیے آپ گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر جایا کرتے تھے۔‘
پیر کو بھی ان سے جب مذاکرات کے حوالے پوچھا گیا کہ پرویز الہی بھی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں تو کیا کوئی بات چیت ہو رہی ہے تو انہوں نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ ’سوائے صاف اور شفاف الیکشن کے میرا کوئی مطالبہ نہیں۔‘
تاہم چند دن قبل آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد امجد اور آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس نے بھی اس تاثر کی نفی کی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی نتیجہ خیز بات چیت ہو رہی ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سمیت اسٹیبلشمنٹ کے اعلی عہدیداران کے نام لے کر ان پر سخت تنقید بھی کی ہے  جس سے ابہام پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی مذاکرات ہو بھی رہے ہیں یا یہ صرف ایک تاثر ہے جو خان صاحب دینا چاہ رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی بات چیت چل رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’عمران خان مذاکرات کا تاثر دینا چاہتے ہیں‘

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان نے حالیہ دنوں میں جس طرح کی زبان استعمال کی اس سے انہیں نہیں لگتا کہ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعلی سطح کے مذاکرات ہو رہے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ شاید عمران خان یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ ان کے مذاکرات ہو رہے ہیں تاکہ ان کے کارکن مطمئن رہیں۔
’اگر کارکنوں کو یہ تاثر جائے کہ وہ اسلام آباد لڑائی کے لیے جا رہے ہیں تو وہ بددل ہو سکتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ شاید کسی کم سطح پر رابطے ہو رہے ہوں مگر حکومت کی جانب سے بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں مل رہا کہ کوئی بات چیت ہو رہی ہے۔

’مذاکرات نہیں تو پیغام رسانی ہو رہی ہے‘

دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ اور عمران خان کے درمیان مذاکرات کا ہونا تو پکی بات نہیں تاہم دونوں کے درمیان پیغام رسانی براہ راست یا بالواسطہ ضرور ہو رہی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس مرحلے پر کوئی بھی مذاکرات کے ہونے کا اقرار نہیں کرے گا کیونکہ یہ بھی یقینی نہیں کہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں، بعض اوقات اس کا نتیجہ نکل آتا ہے بعض اوقات نہیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا تھا کہ آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیشکش کی گئی تھی جس کو انہوں نے ٹھکرایا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے حسن عسکری کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا اقرار اس وقت کیا جاتا ہے جب بات چیت کا نتیجہ نکلنے کا امکان واضح ہو جائے۔
اس سوال پر کہ کیا معاملات تصادم کی طرف جا سکتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔
’بظاہر دونوں فریقوں کے بیانات پر جائیں تو تصادم ہی نظر آ رہا ہے لیکن دیکھنا ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا یا نہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ساری مشق کا بنیادی مقصد مذاکرات ہی ہیں۔
’خان صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دھرنے سے حکومت ختم نہیں کی جا سکتی۔ یا تو ایسی تحریک شروع ہو جیسی ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف تھی تب بھی نتیجہ یہی نکلا تھا کہ ایک اور جنرل یعنی یحیی خان کو اقتدار ٹرانسفر ہوا تھا۔‘

عمران خان نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے ان کے نمائندے صدر عارف علوی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق عمران خان کے لانگ مارچ کے دو مقاصد ہیں ایک تو جلد انتخابات مل سکیں اور دوسرا آرمی چیف ان کی مرضی کا ہو۔
’ان مقاصد کے لیے خان صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ بات چیت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہو رہی تھی اور ہو رہی ہے۔‘
لیکن ضیغم خان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو مشکل مطالبہ ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی عمران خان کی مرضی کی ہو مگر یہ مطالبہ پورا ہونا مشکل ہے کیونکہ اس سے ادارے کی روایت متاثر ہو گی اور آئندہ ہر اپوزیشن جماعت اس تعیناتی میں اپنی مرضی چاہے گی۔ ایسا کرنا ادارے کے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے اس پر ڈیڈ لاک ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے الیکشن کے مطالبے پر درمیانی راہ نکل سکتی تھی۔

شیئر: