Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استنبول دھماکہ، بم نصب کرنے والی شامی خاتون گرفتار: ترکیہ پولیس

تاحال کسی گروپ نے اتوار کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ترکیہ میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے استنبول کے سیاحتی علاقے میں بم نصب کرنے والی شامی خاتون کو گرفتار کر لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترکیہ کی پولیس نے پیر کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ مذکورہ خاتون ’کرد عسکریت پسندوں کے لیے کام کر رہی تھیں۔‘
ترکیہ کے نجی ٹیلی ویژن این ٹی وی نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’خاتون کے پاس شامی شہریت ہے۔‘
دوسری جانب ترکیہ نے استنبول دھماکے کی امریکی مذمت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم امریکی سفارت خانے کے تعزیتی پیغام کو قبول نہیں کرتے۔‘
ترکیہ کے  وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے ٹیلی ویژن پر اپنے بیان میں کہا کہ ہم امریکی سفارت خانے کے تعزیتی پیغام کو قبول نہیں کرتے۔ ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔‘
صدر رجب طیب اردوغان واشنگٹن پر شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہیں، جنھیں انقرہ دہشت گرد تصور کرتا ہے۔
ترکیہ کے وزیر داخلہ نے کردستان ورکرز پارٹی (پے کے کے) پر استنبول میں ہونے والے بم دھماکے کا الزام عائد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
استنبول کے ایک مشہور سیاحتی علاقے میں اتوار کو ہونے والے دھماکے میں چھ افراد ہلاک جبکہ 81 زخمی ہوئے۔
ترکیہ کے وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے ذریعے نشر کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’ہماری تحقیققات کے مطابق پی کے کے دہشت گرد تنظیم (دھماکے کی) ذمہ دار ہے۔‘
پی کے کے جسے انقرہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے دہشت گرد گروپ کے طور پر بلیک لسٹ کیا، نے 1980 کی دہائی سے جنوب مشرقی ترکیہ میں کردوں کی خود مختاری کے لیے پُرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

ترکی کی انسداد دہشت گردی اور کرائم سین کی تحقیقاتی ٹیمیں  جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا (فوٹو: اے ایف پی)

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں شام چار بجکر 20 منٹ پر ہونے والے دھماکے کے بعد شہر کی مصروف استقلال سٹریٹ میں لاشیں زمین پر دکھائی دے رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں مقامی وقت شام 4 بج کر 20 منٹ پر ہونے والے دھماکے کے بعد شہر کی مصروف استقلال گلی میں لاشیں زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے دھماکے کو ’گھناؤنا حملہ‘ قرار دیا۔
بالی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے روانگی سے قبل خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’ہماری قوم کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ استقلال سٹریٹ پر ہونے والے واقعے کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔‘
اگرچہ فوری طور پر دہشت گردانہ حملے کی تصدیق نہیں کی گئی تاہم ترک صدر کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ اس حملےمیں ایک خاتون ملوث ہو سکتی ہیں۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک خاتون کو استقلال سٹریٹ پر ایک بینچ پر بیگ چھوڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ترک میڈیا کے مطابق تقسیم سکوائر کے قریب فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔
ترکیہ کی انسداد دہشت گردی اور کرائم سین کی تحقیقاتی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جعلی فوٹیج پوسٹ کیے جانے کے بعد ترکیہ کے میڈیا واچ ڈاگ نے دھماکے کے آس پاس کے علاقے میں نشریات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر، یوٹیوب، انسٹاگرام اور فیس بک پر بھی لگائی گئیں۔
دھماکہ ایک مسجد کے قریب اور فرانسیسی قونصل خانے سے 300 میٹر کے فاصلے پر ہوا۔
دیگر ممالک کے قونصل خانے بھی استقلال سٹریٹ پر واقع ہیں جہاں کئی دہشتگردانہ حملے ہو چکے ہیں۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے دھماکے کو ’گھناؤنا حملہ‘ قرار دیا (فوٹو: اے ایف پی)

اتوار کو ہونے والا دھماکہ دسمبر 2016 کے بعد سب سے مہلک تھا۔
القاعدہ، داعش اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے ترکیہ میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ترکیہ میں القاعدہ نے نومبر 2003 میں اسی ضلع میں دو الگ الگ خودکش بم دھماکے کیے تھے جن میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور 650 زخمی ہوئے تھے۔اس سے ایک ہفتہ قبل دو عبادت گاہوں پر حملہ کیا تھا۔
2016 میں داعش کے ایک رکن نے اسرائیلی سیاحوں کے گروپ کو نشانہ بنایا جس میں پانچ افراد ہلاک اور 36 زخمی ہوئے۔
دسمبر 2016 میں استنبول کے ایک مصروف سٹیڈیم کے باہر بم حملوں میں 38 افراد ہلاک اور 166 زخمی ہوئے۔
ابھی تک کسی گروپ نے اتوار کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

شیئر: