Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست نہیں صحت کی خبر لیجیے

بدقسمتی سے نہ صرف ذہنی امراض کے ماہرین کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے بلکہ ان امراض کے علاج کے لیے  ادویات بہت مہنگی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
چند سال قبل کراچی کے قومی ادارہ برائے امراض قلب میں دل کے دورے کے سبب فوت ہونے والا سب سے کم عمر شخص ایک انیس سالہ لڑکا تھا۔
اس کے والدین کے مطابق وہ گیارہ سال کی عمر سے سگریٹ نوشی کر رہا تھا۔
پاکستان میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا سب سے کم عمر مریض ایک 15 سالہ لڑکا ہے جو کہ ساری عمر پیزا، برگر کولڈ ڈرنگ اور چپس کھا کر جوان ہوا اور خدشہ یہ ہے کہ وہ بیماری کی پیچیدگیوں کے سبب اپنے ماں اور باپ کی آنکھوں کے سامنے موت سے ہمکنار ہو جائے گا۔
برسبیل تذکرہ پاکستان میں شوگر یا ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تین کروڑ تیس لاکھ ہے اور خدشہ یہ ہے کہ 2045 تک یہ تعداد 6 کروڑ اور پچاس لاکھ افراد سے تجاوز کر جائے گی۔
پاکستان کی سرکاری طور پر آبادی تقریبا 22 اور 23 کروڑ کے درمیان ہے جن میں سے تقریبا آدھی آبادی مختلف اقسام کی نان کمیونیکیبل ڈیزیز یعنی دوسروں کو نہ لگنے والی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے۔
نان کمیونیکیبل ڈیزیز یا بیماریوں سے مراد ذیابیطس یا شوگر کا مرض، دل کی بیماری یا کارڈیو ویسکولر ڈیزیز، گردوں کی خرابی، ہڈیوں یا جوڑوں کے مسائل، ذہنی صحت کے مسائل، کینسر، ہارمونز کی کمی بیشی سے ہونے والے مختلف مسائل، غذائی قلت سے ہونے والی ذہنی اور جسمانی پیچیدگیاں اور دیگر مسائل شامل ہیں۔
دوسری جانب، متعدی یا دوسروں کو لگنے والی بیماریوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جراثیم، وائرس، فنگس، ویکٹرز یعنی کیڑے مکوڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں اور دیگر امراض کا عالمی مرکز بن چکا ہے۔
یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جہاں پر پولیو وائرس پایا جاتا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہونی چاہیے کہ پاکستان اب ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر دنیا میں پائی جانے والی دیگر کئی بیماریاں جو کہ ناپید ہوچکی ہیں، کا بھی گڑھ بنتا جارہا ہے۔
حیرت زدہ قطعاً نہ ہو کیونکہ پاکستان میں Diphtheria یعنی خناق کے کیسز سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں، یہ وہ بیماری ہے کہ جو دنیا سے عرصہ دراز سے ختم ہو چکی ہے لیکن پاکستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرامز میں جاری مبینہ بدعنوانیوں کے سبب سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بچے ویکسین سے محروم ہو رہے ہیں اور ان بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جو کہ دنیا بھر سے ختم ہو چکی ہیں۔

پاکستان کی آبادی تقریبا 22 اور 23 کروڑ کے درمیان ہے جن میں سے تقریبا آدھی آبادی مختلف اقسام کی نان کمیونیکیبل ڈیزیز میں مبتلا ہو چکی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

دوسری جانب ایچ آئی وی انفیکشنز جس کے نتیجے میں ایڈز کی بیماری لاحق ہوتی ہے وہ بھی پاکستان میں آگ کی طرح پھیل رہے ہیں، جس کی ایک وجہ تو عطائیت ہے جبکہ دوسری جانب جنسی بے راہ روی یا ’غیر محفوظ جنسی تعلقات‘ ہے۔
ایچ آئی وی پھیلنے کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھر میں ہر مہینے تقریبا دو سو افراد ایچ آئی وی انفیکشنز کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان افراد میں ایچ آئی وی کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب یہ خون دینے جاتے ہیں یا پھر ان کو کوئی سرجری کروانی ہوتی ہے, اگر ہسپتالوں میں آنے والے ہر مریض کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا جائے تو یہ تعداد شاید بہت زیادہ ہوگی۔
متعدی اور غیر متعدی امراض کی ایک لمبی فہرست ہے جو کہ پاکستان میں پائی جاتی ہیں لیکن ایک بہت بڑا مسئلہ ذہنی امراض کا ہے، پاکستان میں لاکھوں افراد مختلف طرح کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں جن میں شیزوفینیا جیسی ٹھیک نہ ہونے والی بیماری سمیت بائی پولر ڈس آرڈر، ڈپریشن، انزائٹی سمیت دیگر مسائل شامل ہیں جن کی وجہ سے روزانہ کئی افراد ملک کے کسی نہ کسی حصے میں خودکشی کر لیتے ہیں۔
بدقسمتی سے نہ صرف ذہنی امراض کے ماہرین کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے بلکہ ان امراض کے علاج کے لیے  ادویات بہت مہنگی ہیں جبکہ کئی ادویات محض اس وجہ سے میسر نہیں کیونکہ ان کو بنانے والی کمپنیوں نے قیمتوں کے تنازع کے باعث ان کو بنانا بند کر دیا ہے۔
ان حالات میں اگر آپ سیاست کی فکر میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں جب کہ آپ کے آس پاس روزانہ سینکڑوں افراد مختلف بیماریوں کے باعث نہ صرف جاں سے جارہے ہیں بلکہ معذور بھی ہو رہے ہیں، لوگ ذہنی امراض کے باعث خودکشی پر مجبور ہیں، سینکڑوں علاج کی استطاعت نہ ہونے کے باعث سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں جبکہ صاحب استطاعت افراد بھی کینسر اور پیچیدہ آپریشن کروانے کے بعد خط غربت سے نیچے جارہے ہیں تو شاید آپ کو اپنے طرز عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
 

شیئر: