Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ٹورگائیڈ خاتون جو سیاحوں کو مفت خدمات فراہم کررہی ہیں

سیاحت سعودی وژن 2030 میں معاشی تنوع کی حکمتِ عملی کا مرکزی ستون ہے(فوٹو، عرب نیوز)
ریاض میں سیاحت کو فروغ دینے میں مصروف سعودی خاتون سیاحوں کو مفت گائیڈ کی خدمات فراہم کررہی ہیں۔
فاطمہ ابوسرایر جو کمیونیکیشن اور مارکیٹنگ کی کنسلٹنٹ اور لائسنس یافتہ گائیڈ  بھی ہیں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں سمجھتی ہوں سیاح ، مقامیوں کے ساتھ مل کر مشاغل میں مصروف ہونا اور ان سے غیر رسمی گپ شپ کرنا پسند کرتے ہیں‘۔
ابوسرایر رضا کارانہ طور پر  سیاحوں کی رہنمائی کرتی ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ میں تاریخ اور ثقافت کے بارے میں بات کرتی ہوں لیکن میں اپنے بارے میں بھی ان سے گفتگو کرتی ہوں، لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتاتی ہوں اور یہ بھی سناتی ہوں کہ میں کیسے پلی بڑھی‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی یہ اپروچ سعودی عرب کی تصور کو اجاگر کرتی ہے اور وہ ٹور کرنے والوں کو مقامی زندگی کے بارے میں وہ باتیں بتاتی ہیں جو لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جائیں۔
’اس سے مثبت سوچ اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ آنے والوں کو صرف رسمی ذرائع سے ہی معلومات نہیں مل رہی ہوتیں بلکہ ان کا رابطہ براہ راست مقامی افراد سے ہوتا ہے‘ ۔
ٹورز کے لیے’ٹِپ کی بنیاد پر بنے ماڈل‘ کا مقصد ہی یہ تھا کہ سیاحوں کا تجربہ آسان ہو ۔ ’لوگ واقعی اتنا زیادہ پیسہ نہیں خرچ کرنا چاہتے۔ لہذا اس ماڈل کے تحت وہ مجھے اپنے بجٹ کو دیکھتے ہوئے پیسے دیتے ہیں‘۔
لارنس ایٹا کینیڈا سے ہیں اور ایک حالیہ سیاحتی ٹور میں شریک تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس تجربے سے ثقافتی فاصلہ کیسے ختم ہوا۔
وزیٹرز کے لیے سعودی عرب آج بھی ایسی جگہ ہے جس سے یہاں آنے والے ناواقف ہیں۔ جب ٹور کی نوعیت ذاتی ہو جائے تو ثقافتوں کا فاصلہ مٹ جاتا ہے‘۔

ایک سیاح کا کہنا تھا ’ایسےٹورزمملکت کی سیاحت میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں‘(فوٹو، عرب نیوز)

روایتی ٹورز کے برعکس جو حقائق اور ٹائم لائن پر مبنی ہوتے ہیں، ایٹا کے بقول ’ذاتی تجربے سے حقیقی رابطہ جنم لیتا ہے‘۔
ایٹا کہتے ہیں ’اس قسم کا  ذاتی ٹور، سعودی عرب کی سیاحت میں دلچسپی پیدا کرتا ہے جس سے آپ کی توجہ محض منظر دیکھنے کو دیکھنے تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  کہانیوں کے  سننے تک وسیع ہو جاتی ہے کیونکہ آپ جگہ جگہ جا رہے ہوتے ہیں اور لوگوں سے مل رہے ہوتے ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ تجربہ اس لیے بھی اہم تھا کہ ٹور کی قیادت کرنے والی خاتون تاریخی صرف حقائق بتانے کی بجائے ذاتی کہانیوں سے اس تجربے میں زندگی کا رنگ بھر رہی تھیں۔
ایٹا کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف لوگوں کے ساتھ  چلنے سے جو ایک دوسرے کو جاننے کے لیے متجسس ہوں ایک کمیونٹی کا احساس جنم لیتا ہے‘۔
جیسے جیسے سعودی عرب کے سیاحت کا شعبے میں نشوو نما ہو رہی ہے ابوسرایر کمیونٹی پر منبی انیشی ایٹیوز میں بھی اضافہ ہوتے دیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’سعودی عرب میں بہت سیاح آ رہے ہیں لیکن ان کے لیے مناسب گائڈز دستیاب نہیں  اور ہمارے لیے اب سعودی عرب کی سیاحت کے شعبے  میں بہت کچھ ہے‘۔
سیاحت سعودی عرب کے  وژن 2030 میں معاشی تنوع کی حکمتِ عملی کا مرکزی ستون ہے۔
مملکت کا ایک کلیدی مقصد تیل پر انحصار کم کرنا اور ملک کو بین الاقوامی سیاحت کا مرکز بنانا ہے۔
اس وژن کے تحت 2030 تک سیاحوں کی تعداد ایک سو ملین سالانہ تک پہنچانا ہے تاہم مملکت نے یہ ہدف وقت سے سات برس پہلے ہی پورا کر لیا ہے۔ لہذا اب سالانہ ہدف کو تبدیل کر کے سالانہ ایک سو پچاس ملین کیا گیا ہے۔
ابوسرایر کا کہنا ہے مقامی گائیڈ بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ آنے والوں کو مملکت کے بارے میں بتاتے ہیں اور اصل بات ہی یہ ہے لوگ مملکت کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ’اس سے سعودی عرب کو سیاحت کی ایک منزل کے طور پر فائدہ ہوگا کیونکہ سیاح سنتے ہیں جب لوگ بولتے ہیں‘۔
 

شیئر: