Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان بین الاقوامی تجارت میں رعایت کا سٹیٹس برقرار رکھ پائے گا؟

گرے لسٹ کے بعد پاکستان تیسری دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست سے نکل آیا ہے (فائل فوٹو: ایف اے ٹی ایف)
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان تیسری دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست سے بھی نکل آیا ہے۔
تاہم یورپی یونین کی تجارتی رعایت کی سکیم جی ایس پی پلس کا سٹیٹس کیا 2023 کے بعد بھی برقرار رہے گا یا نہیں اس کا فیصلہ آئندہ ایک دو ماہ میں ہونے کا امکان ہے۔
یورپی سفارتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس حوالے سے ایک یورپی جائزہ مشن حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے واپس جا چکا ہے اور اگلے چند ماہ میں اس کی جائزہ رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
اس جائزہ رپورٹ میں جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) پروگرام کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے سے اس سکیم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس رعایتی تجاری سکیم کے مستحق ممالک کو 27 عالمی کنوینشز پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کا منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کی مالی معاونت سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔
پاکستان کا موجودہ جی ایس پی پلس سٹیٹس 2023 تک ہے تاہم اس کے جاری رہنے یا ختم ہونے کا دار و مدار یورپی کمیشن کی جائزہ رپورٹ پر ہے۔
ذرائع کے مطابق کمیشن اپنی رپورٹ میں جائزہ لے گا کہ کیا پاکستان انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں پر عمل پیرا ہے؟
سفارتی حکام کے مطابق پاکستان میں جی ایس پی پلس سٹیٹس میں بڑی رکاوٹ قتل کے ملزمان کی پھانسی کے قوانین پر عمل درآمد ہے۔
تاہم گذشتہ کئی برسوں سے صرف گھناؤنے جرائم یا دہشت گردی کے جرائم میں ہی ملزمان کو پھانسی دی گئی ہے جس پر یورپ کی طرف سے زیادہ اعتراض سامنے نہیں آیا۔

پاکستان رواں برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آیا تھا (فوٹو: ایف اے ٹی ایف)

سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ 2023 کے بعد کے جی ایس پی پلس پروگرام میں ہر طرح کی پھانسی دینے سے رکاوٹ بھی عائد ہو سکتی ہے جس پر پاکستان کو عمل درآمد کر کے ہی سٹیٹس مل سکتا ہے تاہم ابھی تک نئی شرائط سامنے نہیں آئیں۔
رواں سال اگست میں وزیراعظم شہباز شریف نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کا سٹیٹس 2023 کے بعد بھی برقرار رہے گا۔
وزیراعظم نے یہ ریمارکس پاکستان میں یورپی یونین کی نئی سفیر ڈاکٹر رینا کیونکا سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران دیے تھے۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’موجودہ جی ایس پی پلس سکیم پاکستان اور یورپی یونین کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ہے، دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بڑھانا چاہیے، پاکستان 2023 کے بعد بھی اس کا حصہ بنے گا۔‘
جی ایس پی پلس سٹیٹس کیا ہے؟
یورپی ممالک کی جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز پلس ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی اور اچھی حکمرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خاص ترغیب دیتی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف پرامید ہیں کہ پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کا سٹیٹس 2023 کے بعد بھی برقرار رہے گا (فوٹو: پی ایم آفس)

اس کے بدلے میں یورپی یونین اپنی برآمدات کی دو تہائی سے زیادہ ٹیرف لائنوں پر اپنی درآمدی ڈیوٹی کو صفر کر دیتی ہے۔
تاہم کسی ملک کے لیے اس کا تسلسل جی ایس پی پلس کے 27 مرکزی کنوینشنز پر عمل درآمد کے لیے نئے قوانین کے نفاذ اور نئے اداروں کے قیام سے مشروط ہے۔
ان کنونشنز کا تعلق انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات اور اچھی حکمرانی سے ہے۔ جی ایس پی پلس کی سہولت پاکستان کو جنوری 2014 سے دستیاب ہے۔  
مارچ 2020 میں یورپی پارلیمان کی بین الاقوامی تجارتی کمیٹی (آئی این ٹی اے) نے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کے سٹیٹس میں توسیع کردی تھی جس سے پاکستان نے اگلے دو برس تک برآمدات پر ترجیحی ڈیوٹیز سے فائدہ اٹھایا۔
پاکستان پر جی ایس پی پلس سٹیٹس کے اثرات
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد نے بتایا کہ یہ سکیم پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ سکیم سے یورپی یونین کے لیے پاکستانی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق جی ایس پی پلس سٹیٹس سے ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں زرِمبادلہ حاصل ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین پاکستان کا انتہائی اہم تجارتی شراکت دار ہے اور ملکی برآمدات کا 25 سے 30 فیصد سے زائد یورپ کو جاتا ہے۔
’موجودہ حالات میں دنیا کساد بازاری کی طرف جا رہی ہے، بہت ضروری ہے کہ یہ سکیم جاری رہے کیونکہ پاکستان اس سکیم کا خاتمہ برداشت نہیں کر سکتا۔
معاشی تجزیہ کار خلیق کیانی کے مطابق جی ایس پی پلس سٹیٹس سے ملکی معیشت کو بے حد فائدہ ہوا ہے اور خاص طور پر ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں زرِمبادلہ حاصل ہوا ہے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیوٹی فری رسائی پاکستانی مصنوعات کے لیے انتہائی اہم ہے تاکہ یورپی منڈیوں میں دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستانی مصنوعات مقابلہ کر سکیں۔
یورپی یونین کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان اور یورپ کی تجارت کا حجم جی ایس پی پلس سٹیٹس سے قبل 2013 میں 4 ارب 53 کروڑ 80 لاکھ یورو تھا جو 2019 تک 7 ارب 49 کروڑ 20 لاکھ یورو ہوگیا تھا۔
اس وقت دنیا کے جن ممالک کو یہ سٹیٹس حاصل ہے ان میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، فلپائن، بولیویا، کیپ ورڈی، کرغیزستان، منگولیا شامل ہیں۔

شیئر: