Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایثار و وفا کی انوکھی مثال، مصری خاتون نے شوہر کی زندگی کیسے بچائی؟

ھبہ عطیہ نے بتایا کہ ’شوہر نے میرے والدین کی وفات کے بعد مجھے ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی (فوٹو: العربیہ نیٹ)
ایک مصری خاتون معلمہ نے شوہر کی زندگی بچانے کے لیے اپنے جگر  کا بڑا حصہ عطیہ کر کے محبت اور وفاداری کی شاندار مثال قائم کی ہے۔
یہ واقعہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے شمال میں واقع الشرقیہ گورنریٹ میں پیش آیا جہاں ایک 43 سالہ معلمہ ھبہ عطیہ ابراہیم الجوہری نے جگر کے ٹیومر کے عارضے میں مبتلا شوہر احمد عبدالحمید کو اپنے جگر کا دو تہائی حصہ دے کر ان کی جان بچا لی۔
احمد عبدالحمید بھی پیشۂ معلمی سے وابستہ ہیں۔

کہانی منگنی کے وقت شروع ہوئی

مصری معلمہ ھبہ عطیہ نے ’العربیہ نیٹ‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ کہانی آج سے 17 برس قبل شروع ہوئی جب ان کے شوہر نے بلبیس شہر میں ان کے خاندان سے پیغامِ نکاح کے ساتھ نکاح کیا۔
ان کی اور خاندان کی رضامںدی کے بعد رشتہ طے ہو گیا۔ پھر اس کے تقریباً ایک ماہ بعد پتا چلا کہ ان کے منگیتر کو ہیپاٹائٹس سی کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے اور انہوں نے اس رشتے کو برقرار رکھنے کا توڑنے کا اختیار مجھے دے دیا۔
ھبہ عطیہ ابراہیم نے بتایا کہ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میں نے اُس وقت والدین سے اس بارے میں بات کی تو والد نے کہا کہ یہ خدا کی مرضی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بالکل تندرست آدمی اچانک موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ خدا چاہے تو لاعلاج مرض میں مبتلا آدمی بھی صحت یاب ہو جاتا ہے۔
’اس کے بعد میں نے اس رشتے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘
خاتون ھبہ عطیہ ابراہیم نے بتایا کہ اس شادی کے بعد ان کے ہاں چار بچوں کی پیدائش ہوئی اور وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس پورے عرصے کے ان کے شوہر نے انہیں کبھی نہیں جھڑکا۔ وہ ہر دم ان کی اور اولاد کی بہتری کے لیے کوشاں رہے۔

ھبہ عطیہ نے بتایا کہ جب مختلف طبی رپورٹس سامنے آئیں تو وہ اپنے شوہر کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئیں (فوٹو: العربیہ نیٹ)

انہوں نے بتایا کہ شوہر نے میرے والدین کی وفات کے بعد مجھے ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
ھبہ عطیہ نے بتایا کہ آخری برسوں میں ان کے شوہر کے جگر میں وائرس زیادہ ایکٹو ہو گیا اور پھر سب سے بڑی مصیبت ٹیومر کی شکل میں سامنے آئی۔

خطرناک مرحلہ

معلمہ ھبہ عطیہ نے بتایا کہ اس کے بعد زقازیق یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹرز نے وہ ٹیومر تو نکال دیا لیکن ان کے شوہر کی صحت مزید خطرے میں داخل ہو گئی کیونکہ ان کے جگر میں ایک اور گللٹی کی علامات پائی گئی تھیں۔
پھر ڈاکٹروں نے ہمیں ایسے شخص کی تلاش کے لیے کہا جو اپنے جگر کا دو تہائی حصہ عطیہ کرنے کو تیار ہو تاکہ سرکاری ہیلتھ انشورنس کے تحت شوہر کا جگر ٹرانسپلانٹ کیا جا سکے۔
اس کے بعد اس معاملے میں انہوں نے سب سے پہلے اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ کیا لیکن سب طرف سے انہیں انکار ہی سننے کو ملا۔
ھبہ عطیہ ابراہیم کے بقول پھر میں نے فوری طور پر اپنا جگر عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن میرے شوہر نے اس خوف سے انکار کر دیا کہ ایسا کرنا دونوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
’اگر ہم دونوں کو کچھ ہو گیا تو بچوں کی پرورش کون کرے گا۔‘

ھبہ عطیہ ابراہیم کے بقول آپریشن کے بعد جلد ہی ان کی زندگی معمول پر آ گئی (فوٹو: العربیہ نیٹ)

شوہر کا کہنا تھا کہ وہ قدرت کے فیصلے پر راضی ہیں اور اپنے بعد اولاد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے ہیں۔
ھبہ عطیہ نے مزید بتایا کہ جب مختلف طبی رپورٹس سامنے آئیں تو وہ اپنے شوہر کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس کے بعد شوہر کا آپریشن  ہوا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا اور ان (بیوی) کی صحت بھی متاثر نہیں ہوئی۔
ھبہ عطیہ ابراہیم کے بقول اس کے بعد جلد ہی ان کی زندگی معمول پر آ گئی۔
ھبیہ عطیہ ابراہیم الجوہری سمجھتی ہیں کہ خدا کے بعد وہ اپنے شوہر کی زندگی بچانے کا سبب بنیں اور اب وہ دونوں کی زندگی کا سفر ساتھ گزارنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

شیئر: