Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بریانی، رت جگے، سمندر، مجبوریاں اور کام، کس شہر کے ہیں اتنے نام

چٹ پٹے کھانے اور ساحل سمندر کراچی کی شناخت کہے جاتے ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
شہری علاقہ ہو یا دیہی، ہر مقام کچھ ایسی انفرادیت رکھتا ہے جو اسے دیگر مقامات سے جدا کرتی ہے۔ تاہم کچھ علاقے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے تنوع کی وجہ سے بالکل ہی منفرد دکھائی دیتے ہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت گفتگو کا موضوع کم کم ہی بنتی ہے لیکن جب بھی ایسا ہو اس علاقے کے مکین یا اس سے واقف افراد اپنے تجربات شیئر کر کے دلچسپی کا سامان کر جاتے ہیں۔
پاکستانی ٹائم لائنز پر ایسی ہی ایک بحث شروع ہوئی تو بریانی، ساحل، معیاری کام، رات گئے کی چہل پہل سے لے کر مجبوریوں ومسائل کے تذکرے سے واضح تھا کہ ذکر ملک کے سب سے بڑے شہر کا ہورہا ہے۔
سو کے ہینڈل سے پوچھا گیا کہ ’لفظ کراچی سننے کے بعد آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟‘

جواب میں گفتگو کرنے والے درجنوں افراد نے کہیں اپنے تاثرات تو کہیں تجربات شیئر کر کے کراچی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
عمر نے لکھا کہ ’میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں کام کر چکا ہوں۔ لیکن حقیقت ہے کہ امن عامہ کی خراب صورتحال اور انفراسٹرکچر، آلودگی اور ہر جگہ کچرے کے مسائل سے ہٹ کر یہ شہر کام کرنے کے لیے بہترین مقام ہے۔ بہترین لوگ ہیں جو پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت کہیں بہتر پروفیشنلزم رکھتے ہیں۔‘

میرویث کو ’کوئٹہ کی چائے‘ یاد آئی تو ٹویٹی نے ساحل یاد آنے کا اعتراف کیا۔
حلیمہ ثاقب نے ’برنس روڈ‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں رہتی لاہور میں ہوں اور کبھی کراچی نہیں گئی لیکن اس سے متعلق بہت سنا ہے۔‘

مدیحہ مسعود کو شہر کا پرانا نام ’کولاچی‘ یاد آیا تو ’سپر ٹیسٹی فوڈ‘ خصوصا ’سی سی کراتے چٹ پٹ کھانوں‘ کے ذکر سے بھی ٹائم لائنز خالی نہ رہیں۔
’انڈے والے برگر‘ اور ’بریانی‘ کے تذکرے گولا کباب، کٹا کٹ، کڑاہی، تافتان وشیرمال اور باقر خانی تک پہنچے تو یوں لگا کہ کراچی نہیں کسی ریستوران کا تذکرہ ہے، لیکن شہر کے مسائل اور اس کے محل وقوع سے متعلق گفتگو فورا ہی صورتحال واضح کر گئی۔
طحہ انصاری نے شہر میں بدامنی کی نشاندہی کی تو لکھا کہ ’سکون کے سوا سب کچھ اپنے دامن میں رکھنے والا شہر۔‘

ممبئی سے انامیکا نے اپنے تاثرات شیئر کیے تو ’روشنیوں کے شہر‘ کا ماضی یاد کرتے ہوئے موجودہ ’تاریکیوں‘ کا ذکر بھی کیا۔

فریال عثمانی نے ’ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور ڈھیر سارے کچرے‘ کا مسئلہ یاد دلایا تو ریحان نے شہر کو اس ’ماں سے تعبیر کیا جو ساری اولاد کو بغیر کسی فرق کے گلے لگائی‘ ہے۔

شیئر: