افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے کے نتیجے میں اس حملے کا ہدف سفارتی مشن کے سربراہ عبیدالرحمان تو محفوظ رہے تاہم سیکیورٹی اہلکار اسرار احمد شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ داعش کے دعوے کی حقیقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان میں پاکستان کے سفارتی مشن پر کوئی حملہ ہوا ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جب بھی کوئی اونچ نیچ آئی تو پاکستانی سفارتی مشنز کو نشانہ بنایا گیا۔
مزید پڑھیں
-
حنا ربانی کھر کا دورہ کابل، افغان وزیرخارجہ سے ملاقاتNode ID: 721956
-
سعودی عرب کی کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی مذمتNode ID: 723136
-
داعش کے دعوے کی صداقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں: پاکستانNode ID: 723181
سنہ 1995 میں ایک حملے کے دوران پاکستان چانسری کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا تھا جسے 2012 میں از سر نو تعمیر کے ذریعے دوبارہ اصل حالت میں بحالی کیا گیا۔
پاکستان کا موجودہ سفارت خانہ کابل کے نواحی علاقے کارتے پروان میں واقعے وسیع و عریض سفارتی مشن ایک زمانے میں دینا کا سب سے بڑا سفارتی مشن تھا جس کا رقبہ 26 ایکڑ پر محیط ہے۔ یہ چانسری پاکستان کو تقسیم ہند کے بعد ورثے میں ملی تھی تاہم استاد برہان الدین ربانی کے دور میں پاکستان کو اس کا باضابطہ قبضہ ملا تھا۔
چانسری جب پاکستان کے حوالے کی گئی تو یہ مکمل طور پر تباہ حال تھی جسے چھ ماہ کے عرصے میں مکمل طور پر بحال کیا۔
کابل میں پاکستانی سفارت خانہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مصروف ترین سفارت خانوں میں شمار ہوتا ہے۔
2017 میں جب میں کچھ دیگر صحافیوں کے ساتھ کابل گیا تو اس وقت بھی ایک وقت میں ہزاروں افغان مرد و خواتین کو ویزوں کے حصول کے لیے سفارت خانے کے قونصلر سیکشن میں موجود دیکھا۔

سفارت خانہ روزانہ کی بنیاد پر چار سے پانچ ہزار ویزوں کا اجراء کرتا ہے جن میں علاج، تعلیم، کاروبار اور پاکستان میں مقیم اپنے عزیزوں سے ملنے والوں کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔
سفارت خانے کے باہر آئے روز احتجاج تو معمول کی بات ہے۔ پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے افغان شہری کسی نہ کسی موقع پر احتجاج کرتے رہتے ہیں تاہم دو روز قبل ہونے والے حملے کے علاوہ سفارت خانے پر اب تک تین بڑے حملے ہو چکے ہیں۔
1955 میں جب پاکستان نے ون یونٹ کا نفاذ کیا تو افغانستان کے شہریوں نے اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختونخوا کو ون یونٹ میں ضم کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ پشتون علاقوں کے حوالے سے تنازع قیام پاکستان سے چل رہا ہے۔
30 مارچ 1955 کو افغان مظاہرین نے کابل میں پاکستانی سفارتی مشن اور سفیر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ اس حملے میں انھوں نے پاکستانی پرچم کو پھاڑا بلکہ عمارت کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس وقت کے افغان وزیراعظم محمد داؤد خان نے خود مظاہرین کو اکسایا جبکہ پولیس نے سفارت خانے پر حملہ آور افراد کو بلکل بھی نہیں روکا تھا۔
1995 میں افغان طالبان نے پہلی بار ہرات پر قبضہ کیا تو اس وقت افغانستان میں موجود شمالی اتحاد کے لوگوں نے پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام لگا کر احتجاج کیا۔ کم و بیش 5000 لوگوں نے پاکستان کے موجودہ سفارتی مشن پر حملہ کیا۔
اس وقت سفارتی مشن میں تعینات ایک اہلکار کے مطابق 6 ستمبر 1995 کو ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 26 زخمی ہوئے تھے جن میں عملے کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ مظاہرین نے چانسری کو آگ لگا دی تھی جس سے وہ مکمل طور پر تباہ ہوئی۔ پاکستانی مشن کے عملے کو سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے کابل سے نکالا گیا تھا۔
