ریسکیو حکام کے مطابق دریائے سوات میں بہہ جانے والے 18 افراد میں سے دس کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ تین لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل شاہ فہد نے سنیچر کو جاری بیان میں کہا کہ سرچ آپریشن گزشتہ 24 گھنٹوں سے جاری ہے، اس وقت سوات کے مختلف علاقوں خوازہ خیلہ، کبل بائی پاس اور بری کوٹ میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 120 سے زائد اہلکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
سرچ آپریشن میں سوات، ملاکنڈ اور شانگلہ سے ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بابوسر ٹاپ پر سیاحوں کے ساتھ راہزنی، ’یہاں کوئی جگہ محفوظ نہیں‘Node ID: 891190
خیال رہے کہ گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقام سوات میں موسلادھار بارش کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں 18سیاح ریلے میں بہہ گئے تھے۔
وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور نے غفلت برتنے پر ضلع کے چار افسران کو معطل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے واقعے کی انکوائری کے لیے کہا ہے۔
ایک عینی شاہد نصراللہ نے بتایا تھا کہ بائی پاس روڈ پر واقع ایک ریستوران میں ناشتے کے بعد 20 سیاح دریا کے درمیان خشک جگہ پر چلے گئے تھے اور اچانک آنے والے پانی کے بہاؤ میں گھر گئے۔
متاثرہ خاندان کے ایک فرد نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ناشتے کے بعد فیملی کے ہمراہ دریا کے قریب گئے۔ ’بچے اور خواتین سیلفی لے رہے تھے کہ اسی دوران ریلہ آیا اور وہ درمیان میں پھنس گئے۔‘
ایک اور سیاح نے بتایا کہ ان کے دو بیٹوں سمیت فیملی کے 8 بچے تاحال لاپتہ ہیں جبکہ دو خواتین کی لاشیں مل گئی ہیں۔ سیاح کا کہنا تھا کہ وہ سیر و تفریح کے لیے بچوں کے ساتھ آئے تھے مگر ان کا سب کچھ اجڑ گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ بائی پاس روڈ پر دو خاندانوں کے 18 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے جن میں سے ایک فیملی کا تعلق پنجاب جبکہ دوسرا خاندان مردان سے آیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دریا کے قریب جانے اور نہانے پر پہلے سے دفعہ 144 نافذ کر کے پابندی لگا دی گئی تھی۔
ڈپٹی کمشمنر شہزاد محبوب نے مزید کہا کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر متعدد شہریوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق دریائے سوات میں آنے والے شدید سیلابی ریلے کے باعث متعدد علاقے متاثر ہوئے ہیں۔