Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یورپ جانے کا خواب،’بیٹے کی لاش واپس کرنے کے لیے والدین سے رقم کا مطالبہ‘

’ایک بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ عبدالصمد کی موت بارڈر کراس کر رہا تھا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بہتر روزگار کی خواہش لیے یورپ جانے کے لیے والا نوجوان ایران میں جان کی بازی ہار گیا۔
اہلخانہ کے مطابق ’عبدالصمد کراچی سے بیرون ملک جانا چاہتا تھا۔ وہ اس سلسلہ میں کسی سے رابطے میں تھا اور رواں ماہ کے آغاز پر گھر سے روانہ ہوا تھا۔ اب انٹر نیٹ سے معلوم ہوا ہے کہ عبدالصمد کی موت ہو گئی ہے اور اس کی میت ایران میں ہے۔میت کو پاکستان لانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے مانگے جارہے ہیں۔‘
عبدالصمد کے خالہ زاد بھائی محمد اسد نے اردونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے پڑوسی ملک میں ان کے بھائی کی لاش موجود ہے۔ عبدالصمد کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ عبدالصمد کی موت برف میں پاؤں پھسنے سے ہوئی ہے۔ ایک بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ بارڈر کراس کر رہا تھا۔‘
محمد اسد نے کہا کہ ’عبدالصمد نے سعودی عرب میں کام کی غرض سے موجود بڑے بھائی سے کچھ عرصہ قبل پیسے منگوائے تھے۔ اور اس کی خواہش تھی کہ وہ بھی بیرون ملک جائے تاکہ معاشی حالات بہتر ہو سکیں۔ اب اطلاع ملی ہے کہ بھائی کی لاش ایران میں ہے اور حوالگی کے لیے ایک بندے سے رابطہ ہوا ہے جس کا کہنا ہے کہ ڈیڈ باڈی پاکستان لانے میں ڈھائی لاکھ روپے لگے گے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے ہمارے مالی حالات اچھے نہیں ہے۔ مالی حالات کو بہتر بنانے کی نیت سے ہی ہمارے بھائی نے اتنا بڑا فیصلہ لیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ’عبدالصمد پانچ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھا اور ہاتھ سے معذور بھی تھا، گھر والے اس کی موت سے افسردہ ہیں۔ اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اس کی لاش کے حصول کے لیے کچھ نہیں پا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے اپیل کی ہے کہ عبدالصمد کے جسد خاکی کو پاکستان لانے میں مدد کی جائے۔‘


یاد رہے کہ وفاقی حکومت کے مطابق رواں سال پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے 2446 کیسز درج ہوئے ہیں۔ پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں ملوث 791 سمگلرز کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
جامعہ کراچی کی شعبہ جرائم کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق انسانی سمگلرز ایران، عرب ممالک اور یورپ تک جانے کے لیے بلوچستان کے سرحدی علاقوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جن میں چاغی اور ماشکیل سمیت مندبلو، کلدان، کلاتو اور پنجگور کے راستوں سے لوگوں کو سرحد پار کرواتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی خطرناک سفر ہوتا ہے اور اس پر چلنے والے کم افراد ہی اپنی منزل تک پہنچتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بہتر مستقبل کی خواہش لیے سینکڑوں نوجوان ہر روز اس موت کے سفر پر جانے کے لیے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کرتے ہیں۔

شیئر: