Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالتی فیصلے میں پنجاب پولیس کو ’بے تاج بادشاہ ہے‘ قرار دینے والے مجسٹریٹ کا فوری تبادلہ

فیصلے میں آئی او (تفتیشی افسر) کے عمل کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر عارف والا میں حال ہی میں ایک مجسٹریٹ نے پولیس کے خلاف ایک سخت فیصلہ لکھا ہے جس میں پولیس کے اختیارات پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب فیصلے کی کاپی کے مطابق عارف والا کی عدالت میں مجسٹریٹ سیکشن 30 محمد اقبال کلیار نے پولیس کے اختیارات اور کردار پر سخت ریمارکس فیصلے کا حصہ بنائے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق ملزم محمد جاوید ولد محمد اسحاق ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں انہیں ایک اور مقدمے میں بھی نامزد کر دیا گیا۔
پے در پے مقدمات میں ملوث کیے جانے پر مجسٹریٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’بے شک پولیس اس ملک میں ’کنگ ود آؤٹ کراؤن‘ (بےتاج بادشاہ) ہے۔ پولیس افسران لامحدود اختیارات کے مزے لے رہے ہیں جن پر کوئی قابو نہیں۔ یہ قانون کی بالادستی پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ پولیس کی موجودگی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ قانون ہی سب سے بالاتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محکمہ پولیس خود کو سپریم تصور کرتا ہے۔‘
مجسٹریٹ محمد اقبال کلیار نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ ’محکمہ پولیس اس قدر بے قابو ہو چکا ہے کہ اکثریت پولیس افسران کی ٹک ٹاکرز، قبضہ مافیا اور دیگر سماجی برائیوں کے حمایتی یا مددگار ہیں۔ اس عدالت کو یہ امر حیران کن لگا کہ تفتیشی افسر نے غی قانونی طور پر ملزم محمد جاوید ولد محمد اسحاق کو موجودہ مقدمے میں پولیس حراست کے دوران ملوث کیا۔ بظاہر موجودہ مقدمہ ایک گھڑا ہوا (پلانٹڈ) معلوم ہوتا ہے۔‘
 فیصلے میں آئی او (تفتیشی افسر) کے عمل کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا جس نے ملزم کو اس نئے مقدمے میں بھی ملوث کیا۔ عدالت نے ملزم کو جیل بھیجنے اور رپورٹ 6 اکتوبر 2025 کو طلب کرنے کا حکم دیا۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ اس فیصلے کے ایک روز بعد ہی مجسٹریٹ محمد اقبال کلیار کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ سے جاری ایک نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ ماتحت سول جج محمد اقبال کلیار کو عارف والا سے ہٹا کر لاہور سول کورٹ میں آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی یعنی او ایس ڈی لگا دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ یہ تعیناتی ’عوامی مفاد‘ میں کی گئی ہے اور انہیں 24 ستمبر 2025 تک رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نوٹیفیکشن میں اس تبادلے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے۔

پنجاب میں حالیہ سالوں میں پولیس کے بڑھتے ہوئے ’اثروسوخ‘ پر تنقید کی جاتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف لاہور کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طارق خورشید خواجہ نے حال ہی میں ایک مراسلہ جاری کیا ہے جس میں تمام ایڈیشنل سیشن ججز اور عدالتی افسران  کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر پولیس افسران یا اہلکاروں کے خلاف کسی فوجداری مقدمے کے اندراج یا محکمانہ کارروائی کی سفارش کا حکم کسی کیس میں دیا جائے تو اسے براہِ راست پولیس محکمے کو نہ بھیجا جائے، بلکہ اس فیصلے کو سیشن جج کے دفتر میں بھیجا جائے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کو ’سنجیدگی سے لیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ پنجاب میں حالیہ سالوں میں پولیس کے بڑھتے ہوئے ’اثروسوخ‘ پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ کہ پولیس کو لامتناعی اختیار دیے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن نے اس صورت حال کو پولیس سٹیٹ کا نام دے رکھا ہے۔

 

شیئر: