Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے‘ پر یورپی یونین کی ایران پر نئی پابندیاں

یورپی یونین کے مطابق پابندیاں طاقت کے ذریعے مظاہرین کو دبانے اور روس کو ڈرونز کی فراہمی پر لگائی گئی ہیں (فوٹو: روئٹرز)
یورپی یونین نے ایران کے آرمی چیف، سرکاری ریڈیو، ٹی وی اور پاسداران انقلاب کے کمانڈرز پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یورپی یونین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ پابندیاں طاقت کے ذریعے مظاہرین کو دبانے اور احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے دوسرے شخص کو پھانسی دینے کی وجہ دے لگائی گئی ہیں۔
27 ممالک کے بلاک ڈرونز بنانے والے آٹھ اداروں اور ایئرفورس کے کمانڈرز کو بھی فہرست میں شامل کیا ہے، جس کا مقصد ایران پر پریشر بڑھانا ہے کیونکہ وہ روس کو ڈرون فراہم کر رہا ہے جو یوکرین میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
 یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ ’ہمارا ہدف وہ لوگ ہیں جو احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے کے ذمہ دار ہیں۔‘
’اسی طرح تہران کی جانب سے روس کی حمایت اور ڈرونز کی فراہمی بھی ہمارا ہدف ہیں۔‘
یورپی یونین کی فہرست میں اسلامک ریپبلک آف ایران براڈکاسٹنگ (آئی آر آئی بی)، اس کے ڈائریکٹرز، ایک ٹی وی اینکر بھی شامل ہیں کیونکہ پکڑے جانے والے افراد کے زبردستی اعتراف جرم نشر کیے۔
اسی طرح ایرانی آرمی چیف عبدالرحیم موسوی، نائب وزیر داخلہ اور پاسداران انقلاب کے علاقائی کمانڈرز کے ویزوں پر پابندی ہو گی جبکہ ان کے اثاثے بھی ضبط کیے جائیں گے۔
سخت گیر موقف رکھنے والے مذہبی رہنما سید احمد خاتمی بھی فہرست میں شامل ہیں جو کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کو ابھارتے رہے ہیں اور ان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
یہ یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا تیسرا مرحلہ ہے جس میں ان ایرانی حکام کو ہدف بنایا گیا ہے جنہوں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیے۔
ایران میں احتجاج کا سلسلہ ستمبر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب درست طور پر حجاب نہ لینے پر مہسا امینی نامی 22 سالہ خاتون کو اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا اور دو روز بعد پولیس حراست میں ہلاک ہو جانے کے اطلاع سامنے آئی تھی۔
یورپی یونین کی جانب سے لگائی جانے والے نئی پابندیوں میں 60 سے زائد افراد کے نام شامل ہیں۔
اقدام پیر کو ایران کی جانب سے اس دوسرے شخص کو پھانسی دیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے جس کو ایرانی حکام نے پھانسی دی تھی۔
جوزف بوریل کا مزید کہنا تھا کہ ’موت کی سزا کو مظاہرین کو دبانے کے لیے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال قابل مذمت ہے۔‘
جرمنی کے وزیر خارجہ انالینا بائربوک کا کہنا ہے کہ ’پھانسیوں کی سزا لوگوں کو متنبہ کرنے کی ایک کوشش ہے کہ وہ احتجاج سے باز رہیں۔‘

شیئر: