Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں اخلاقی پولیس ختم کرنے کا اعلان

اخلاقی پولیس نے 2006 میں شہروں میں گشت کرنا شروع کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد ایرانی حکومت نے اخلاقی پولیس کو ختم  کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا ہے کہ ’اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اسے ختم کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے یہ بات ایک مذہبی کانفرنس میں سوال کا جواب دیتے ہوئی کہی۔ ان سے پوچھا گیا کہ ’اخلاقی پولیس کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟‘
ایران میں اخلاقی پولیس کا قیام سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں ہوا جس کا مقصد ’خواتین میں حجاب کے استعمال کو یقینی بنانا تھا۔‘ پولیس نے 2006 میں شہروں میں گشت کرنا شروع کیا۔
گزشتہ روز اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ حجاب کے حوالے بنائے گئے قانون کا جائزہ لے رہی ہے۔
محمد جعفر منتظری نے کہا کہ ’پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں اس معاملے پر کام کر رہی ہیں اور جائزہ لے رہی ہیں کہ کیا اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ قانون میں کیا تبدیلی ہو گی، لیکن کہا کہ جائزہ کمیٹی نے بدھ کو پارلیمان کے ثقافتی کمیشن سے ملاقات کی اور ایک یا دو ہفتوں تک نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
سابق ایرانی صدر حسن روحانی کے دور میں حجاب کے حوالے سے اتنی سختی نہیں تھی۔ بہت سی خواتین تنگ جینز اور ڈھیلے ڈھالے اور رنگ برنگے حجابوں میں نظر آئیں۔ لیکن رواں برس جولائی میں ایرانی صدر ابراہیم ریئسی نے اس قانون کو سختی سے لاگو کرنے کا حکم دیا۔
تاہم بہت سی خواتین نے اس قانون کی پاسداری نہیں کی تھی۔

ایران نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور کرد گروہوں پر ملک میں ’ہنگامے‘ کروانے کا الزام لگایا (فوٹو: اے ایف پی)

ایران نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور کرد گروہوں پر ملک میں ’ہنگامے‘ کروانے کا الزام لگایا ہے۔
ایرانی پاسدرانِ انقلاب کے ایک جنرل نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جاری ہونے والے مظاہروں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم ناروے کے شہر اوسلو میں موجود ’ایران ہیومن رائٹس‘ نے منگل کو کہا کہ ان مظاہروں میں سکیورٹی فورسز نےکم از کم 448 افراد کو ہلاک کیا ہے۔

شیئر: