Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاپان دفاعی بجٹ اور عسکری صلاحیت کیوں بڑھا رہا ہے؟

امریکہ اور چین کی دشمنی عالمی کمیونٹی کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ فوٹو: اے پی
جاپان نے رواں ہفتے قومی سلامتی سے متعلق ایک نئی حکمت عملی متعارف کروائی ہے جس کے تحت وہ دشمنوں کے حملوں کو روکنے کے لیے ’جوابی حملے‘ کرنے کی صلاحیت پیدا کرے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد سے جاپان نے پہلی مرتبہ پالیسی میں تبدیلی کا یہ تاریخی اقدام اٹھایا ہے۔
اس پالیسی کے تحت چین، جنوبی کوریا اور روس کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے جاپان اپنے دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ کرے گا۔
جاپان کی سکیورٹی حکمت عملی میں سب سے بڑی تبدیلی ’جوابی حملوں‘ کی صلاحیت پیدا کرنا ہے جس کو حکومت نے ’ناگزیر‘ قرار دیا ہے۔
جاپان کا مقصد ہے کہ کسی بھی حملے کو فاصلے سے اور پہلے سے ہی روکنے اور ناکام بنانے کی  صلاحیتیں آئندہ دس سالوں میں حاصل کر لے۔
اس نئی پالیسی کے متعارف ہوتے ہی 1956 کی حکومتی پالیسی بے معنی ہو گئی ہے جس کے مطابق اپنے دفاع کے لیے دشمن کے اہداف پر حملہ کرنا آخری آئینی حربہ ہوتا تھا۔
جاپان کا کہنا ہے کہ میزائل حملے ایک حقیقی خطرہ بن گئے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے پاس موجود حالیہ دفاعی نظام ناکافی ہے۔
رواں سال کے دوران شمالی کوریا نے 30 مرتبہ سے زیادہ میزائل داغے جن میں سے ایک جاپان کے اوپر سے گزرا تھا، جبکہ چین کی جانب سے مارے گئے یلسٹک میزائل جاپان کے جنوبی جزیروں کے قریب گر چکے ہیں۔

جنگ عظیم دوم کے بعد جاپان نے دفاعی پالیسی میں تاریخی تبدیلی کی۔ فوٹو: اے پی

جاپان کا کہنا ہے کہ جوابی حملوں کی صلاحیت رکھنا اس کا آئینی حق ہے اگر یہ دشمن کی جانب سے حملے کے ردعمل میں کیے جائیں۔
نئی پالیسی کے تحت جاپان اپنے دفاعی اخراجات دگنے کرتے ہوئے مجموعی پیداوار کے 2 فیصد تک کرے گا۔
جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیدا کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو سالانہ 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی جس کے لیے انہوں نے ٹیکس میں اضافے کی تجویز بھی دی ہے۔
تاہم وزیراعظم کی ٹیکس کے حوالے سے پیشکش مسترد ہو گئی ہے جس کے بعد پانچ سالہ دفاعی منصوبہ مکمل فنڈنگ کے بغیر ہی جاری کرنا پڑا ہے جبکہ حکومت اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
آئندہ پانچ سالوں میں جاپان طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر 37 ارب ڈالر خرچ کرے گا جنہیں تیار کرنے کے مرحلے کا آغاز سال 2026 میں ہوگا۔
اس کے علاوہ جاپان دیگر ہتھیار جیسے ہائپر سونک میزائل اور بغیر پائلٹ کے وہیکل بھی تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ماہرین کے خیال میں سائبر سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبے میں ناکافی صلاحیت ہونے کے باعث طویل فاصلے پر میزائل داغنے کے لیے جاپان کو امریکہ پر انحصار کرنا ہوگا۔
آئندہ پانچ سال کے عرصے میں جاپان 58 ارب ڈالر سائبر سکیورٹی اور خلائی شعبے میں خرچ کرے گا۔

جاپانی وزیراعظم کے مطابق نئی دفاعی پالیسی کے لیے سالانہ 30 ارب ڈالر چاہیے۔ فوٹو: اے پی

’انتہائی پیچیدہ اور شدید‘ علاقائی سکیورٹی ماحول نے جاپان کو اپنی دفاعی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا ہے۔
ایک طرف چین ہتھیار اکٹھے کرنے کی دوڑ میں پیش پیش ہے جبکہ دوسری جانب اس کی امریکہ کے ساتھ دشمنی جاپان اور عالمی کمیونٹی کے امن اور سکیورٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ شمالی کوریا بھی جوہری صلاحیتوں میں اضافے کی تیزی سے کوششیں کر رہا ہے تاہم جاپان اپنے لیے چین کو ہی اصل خطرہ سمجھتا ہے۔

شیئر: