Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر، سکیورٹی فورسز نشانے پر

سی ٹی ڈی کے مطابق خیبرپختونخوا میں رواں سال 768 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا اور بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ 
خیبر پختونخوا 15 سال دہشت گردی کی عفریت کا شکار رہا۔ جنوبی اضلاع خصوصاً سابقہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشنز ہوئے اور ان علاقوں میں امن قائم ہوا۔
طویل خاموشی کے بعد گذشتہ ایک ماہ سے پھر سے ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے امن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
صرف دسمبر کی بات کی جائے تو قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری ہلاک ہوئے۔ 
ان متاثرہ اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان، لکی مروت اور بنوں شامل ہیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردی کے ساتھ مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی گئی۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیز فائر ختم کرنے کا اعلان
حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان رواں سال مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کی دو نشستیں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہوئیں۔ مذاکراتی عمل کے دوران ٹی ٹی پی کی جانب سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم 28 نومبر کو ایک اعلامیے کے ذریعے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا اور یہ موقف اپنایا کہ مذاکرات کے باوجود ان کے خلاف سکیورٹی فورسز آپریشن کر رہی ہیں لہٰذا اب جوابی کارروائی کی جائے گی۔ 
تحریک طالبان کی جانب سے سیز فائر ختم کرنے کے اس اعلان کے بعد سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ نظر آیا۔
دسمبر میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات
رواں برس دسمبر میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کی بات کی جائے تو 3 دسمبر کو ضلع نوشہرہ میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا جس میں موبائل وین میں سوار تین پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا۔ 

18  دسمبر کو لکی مروت برگی تھانے پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے 4 اہلکاروں کو ہلاک کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

14  دسمبر کو شمالی وزیرستان میران شاہ میں خودکش حملے میں ایک شہری ہلاک، جبکہ 9 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 20 افراد زخمی ہوئے۔ 
18  دسمبر کو لکی مروت برگی تھانے پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے 4 اہلکاروں کو ہلاک کیا۔
19  دسمبر کو شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر خودکش حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے۔
دہشت گردوں کی جانب سے رواں ماہ کی سب سے بڑی کارروائی ضلع بنوں کینٹ میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے حراستی مرکز میں کی گئی جہاں زیر تفتیش دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں سے ہتھیار چھین کر انہیں یرغمال بنایا۔ 
سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں 48 گھنٹوں کے بعد 20 دسمبر کی دوپہر کو آپریشن شروع کیا گیا جو رات تک جاری رہا۔
ترجمان پاکستانی فوج کے مطابق ’سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں موجود 25 دہشت گرد ہلاک اور 10 گرفتار کیے گئے ہیں، آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں تین سکیورٹی اہلکار جان سے گئے، جبکہ دو افسران سمیت 10 سپاہی زخمی ہوئے۔
منگل کے روز جنوبی وزیرستان وانا سٹی پولیس سٹیشن پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا اور پولیس سے ہتھیار چھین کر فرار ہوگئے۔ 
تجزیہ کار کی رائے
سینیئر تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق ’خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کی وجہ ہمسایہ ملک افغانستان میں بدلتی صورت حال ہے، وہاں کے سرحدی علاقوں میں ایک بارپھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان مضبوط ہو رہی ہے۔‘ 

محمود شاہ کہتے ہیں ’وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع بارڈر کے قریب ہیں اس لیے وہاں صورت حال خراب ہو رہی ہے جبکہ جنوبی اضلاع بھی ان قبائلی علاقوں سے متصل ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شمالی وزیرستان میں قاری گل رحمان گروپ اور ڈی آئی خان میں گنڈاپور گروپ موجود ہیں جو وقتا فوقتاً کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔‘
’حکومت کا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فیصلہ غلط تھا حکومت کو چاہیے کہ وہ افغان طالبان سے بات چیت کرے اور ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں، ان کو بتایا جائے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔‘ 
محمود شاہ کہتے ہیں کہ ’وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے ان کو سیاست کے بجائے سکیورٹی اداروں کو فعال بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حالات میں پولیس اور سکیورٹی اداروں کو مقابلے کے لیے تیار کرنا پڑے گا۔‘
ان کے مطابق ’کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی صلاحتیوں کو بڑھانے کے لیے ان کے اہلکاروں کو جدید تربیت دینی کی اشد ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بنوں کینٹ میں حراستی مرکز کو کرایے کے مکان میں رکھنا سیکورٹی کے پہلو سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح ہائی پروفائل دہشت گردوں کو بنوں کے بجائے کسی محفوظ شہر منتقل کرنا چاہیے تھا۔‘
ایک سال میں خیبر پختونخوا پولیس پر کتنے حملے کیے گئے؟
سنہ 2022 میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تشویشناک اضافہ نظر آیا، کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 2022 میں مختلف نوعیت کے 220 حملے کیے گئے جن میں پولیس نشانہ بنی، ان حملوں میں 120 پولیس کے جوان ہلاک، جبکہ 125 زخمی کیے گئے۔  

سی ٹی ڈی نے صوبہ بھر میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات پر دو ہزار 597 آپریشنز کیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 دہشت گردوں کے خلاف سی ٹی ڈی کی کارروائیاں
سی ٹی ڈی کے مطابق ’خیبر پختونخوا میں رواں سال 768 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 90 دہشت گردوں کے سر کی قیمت بھی مقرر تھی۔ گرفتار دہشت گردوں میں 628 ہائی پروفائل مطلوب ملزمان بھی شامل تھے۔‘
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے صوبہ بھر میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات پر دو ہزار 597 آپریشنز کیے، ٹارگٹڈ آپریشنز میں 349 دستی بم 16 خود کش جیکٹس، 80 ایس ایم جی گن، آر پی جی 7 راکٹ لانچر اور بھاری تعداد میں دیگر اسلحہ برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ بنوں حراستی مرکز میں دہشت گردوں کے قبضے کے بعد امریکہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان کو اپنا سکیورٹی پارٹنر قرار دے کر دہشت گردی سے نمٹنے میں تعاون کی پیش کش کی۔

شیئر: