Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس:مجرموں کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

عدالت نے ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی تھی (فوٹو: سکرین گریب)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نُور مقدم قتل کیس میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر اور دیگر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ 
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔  
خیال رہے کہ مرکزی مجرم ظاہر جعفر اور دیگر نے سزا کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں جبکہ مقتولہ نور مقدم کے والد مدعی شوکت مقدم کی جانب سے مرکزی مجرم کے والد اور تھیراپی ورکس کے ملازمین کی بریت کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام اپیلوں کو یکجا کر کے سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ 
خیال رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے رواں برس فروری میں نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جبکہ والدین کو بری کر دیا تھا۔ 
عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے گھر کے چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے مقدمے میں نامزد 12 ملزمان میں سے 9 کو بری جبکہ تین کو سزا سنائی تھی۔ نور مقدم کے والد نے ملزمان کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی جبکہ سزا پانے والے مجرموں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ 
عدالت نے فریقین کے وکلا کو 7 روز میں تحریری طور پر اضافی دلائل جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔  
مرکزی مجرم کے وکیل نے کہا کہ ’ظاہر جعفر امریکی شہری اور نیو جرسی کا رہنے والا ہے جہاں قانون میں سزائے موت کا تصور نہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ اس نکتے کو بھی مدنظر رکھے۔

ظاہر جعفرکے وکیل کا کہنا تھا کہ ’صرف سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر سزا کیسے دے سکتے ہیں؟‘ (فوٹو: سکرین گریب)

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’ہمارا ملک آزاد اور ہمارا اپنا قانون ہے، ہم نے اس پر عمل کرنا ہے۔ 
عدالت نے تھیراپی ورکس کو ملزمان نامزد کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وقوعہ پر سب سے پہلے تھراپی ورکس والے پہنچے۔ پراسیکیوشن کے گواہ رکھنے کے بجائے آپ نے اتنے زیادہ ملزم کیوں رکھ دیے؟ 
مدعی کے وکیل بابر حیات نے کہا کہ ’تھیراپی ورکس کے ملازمین نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ تھیراپی ورکس کو کنڈکٹ کی وجہ سے کیس میں ملزم بنایا گیا تھا۔ 
ظاہر جعفرکے وکیل عثمان کھوسہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ریکارڈ پر اعتراض اٹھایا اور ڈی وی آر فوٹیج قبضے میں لے کرپیش کرنے کے طریقے پراعتراض کیا۔
انہوں نے کہا کہ صرف سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر سزا کیسے دے سکتے ہیں؟ آج کل کے دور میں اس طرح سزا دینا مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
جس پولیس کانسٹیبل نے ڈی وی آر قبضے میں لیا اس کا بیلٹ نمبر نہیں لکھا گیا نہ ہی اس نے ریکوری میمو پر دستخط کیے۔ 
عدالت نے فریقین کے وکلا کو 7 روز میں تحریری طور پر اضافی دلائل جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔  

شیئر: